بھٹو صاحب نے غلام اسحاق خان سے کہا کہ اس لمحے کے بعد ڈاکٹر صاحب کو ایک روپیہ یا ایک ارب روپیہ کی ضرورت ہو اسے قومی ذمہ داری سمجھ کر بلا تاخیر فراہم کیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کو آئندہ اس قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئیے۔ ڈاکٹر صاحب نے دن رات ایک کر کے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ایک زبردست اور با صلاحیت ٹیم تشکیل دے دی۔8سال کی کاوش کے بعد ڈاکٹر صاحب اپنے مشن میں کامیاب ہو چکے تھے۔ جب پہلی بار ڈاکٹر صاحب نے جنرل ضیاء الحق کو بتایا کہ بم تیار ہے۔ صرف ایک ہفتے کے نوٹس پر ہم دھماکہ کر سکتے ہیں۔ اس وقت جنرل ضیا ء نے فرط جذبات میں ان کا ماتھا چوم لیا تھا۔ چند دن بعد جب مشاہد حسین سید اپنی شادی کا کارڈ دینے ڈاکٹر صاحب کے پاس گئے تو بھارت کے نامور صحافی کلدیپ نئیر بھی ان کے ساتھ تھے۔ کلدیپ نے اس ملاقات میں ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ کا بم کہا ں تک پہنچا؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا’’صرف اسکرو‘‘ٹائٹ کرنے رہ گے ہیں‘‘کلدیپ نئیر نے یہ سٹوری دس ملین روپے میں ٹائمز آف انڈیا کو بیچ دی کہ پاکستان نے ایٹم بم بنا لیا۔ دنیا میں کھبلی مچ گئی۔ جنرل ضیاء نے ڈاکٹر صاحب کو فون کر کے کہا کہ آپ کے انکشاف نے دنیا بھر میں ایک نئی بحث کا آغازکر دیا ہے۔ ڈاکٹرصاحب نے کہا کہ میں نے یہ انکشاف دانستہ کیا۔ تاکہ دنیا کو اندازہ ہو جائے کہ اب پاکستان ایٹمی طاقت بن چکاہے۔ اس سے قبل جنرل ضیاء نے اس وقت جب بھارت کی فوجیں پاکستانی سرحد پر جمع ہو رہی تھیں کرکٹ ڈپلومیسی کے تحت دہلی پہنچ کر وزیر اعظم راجیو گاندھی کے کان میں یہ بات کہی کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو یہ ضرور سوچ لیجئے کہ ہمارے پاس بھی وہ کھلونا موجود ہے۔یہ سن کر راجیو گاندھی کو پسینہ آگیا ان کا چہرہ فق ہو گیا تھا انہوں نے صرف 48گھنٹے بعد ہی بھارتی فوج کو واپس اپنی پرانی پوزیشنوں پر آنے کا حکم جاری کر دیا۔ مئی 1998میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پاکستان نے دھماکے کئیے تو پاکستان دنیا کا ساتواں اور اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک بن چکا تھا۔ نواز شریف نے یہاں پوری جرات اور بصیرت سے یہ فیصلہ کرکے ملک کو ناقابل تسخیر بنانے میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس سے قبل ڈاکٹر صاحب پاکستان کو میزائل ٹیکنالوجی میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کر چکے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میزائل ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے میں بینظیر اور نوازشریف کا بڑا ہاتھ تھا۔ بھٹو اور ڈاکٹر عبدالقدیر نے جو پودا لگایا تھا وہ اب جڑ پکڑ چکا تھا۔ پاکستان کا دفاع نا قابل تسخیر ہو چکا تھا۔یہی وجہ تھی کہ 2000 ء میں جب بھارت کی فوجیں پاکستان کی سرحدوں پر جمع ہوئیں اور جنگ کے بادل چھا گئے تو اس مرحلے پر جنرل مشرف نے سفارتی ذرائع سے بھارت کو یہ پیغام دیا تھا: اگر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو پاکستان آخری نہیں پہلی ترجیح کے طور ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گا۔ بھاریتوں کے لئے یہ ایک جھٹکا تھا وہ پیچھے ہٹ گئے۔ جنرل مشرف کو معلوم تھا کہ یہ ڈاکٹر صاحب کی کرشمہ سازی ہے جس نے پاکستان کو محفوظ کر دیا ہے۔ لیکن بنیادی طور پر ڈاکٹر صاحب کے ساتھ 2004کے بعد سے جو سلوک روا رکھا گیااس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا اس پر ہم سب کو من حیث القوم شرمندہ ہونا چاہئیے۔ ڈاکٹر صاحب کے خطوط پڑھ کر، ان کے انٹرویوز سن کر، اپنے کانوں سے ان کے گلے شکوے جان کر، اب پچھتاوے کے علاوہ ہمارے پلے کیا رہ گیا؟ ڈاکٹر صاحب تو بے بسی، مایوس، اضطراب اور بے چینی کے ساتھ اس دنیا سے چلے گئے باتوں اور یادوں کا ایک ہجوم ہے لیکن ہمارے لئے ایک سبق چھوڑ گئے۔ قوموں کاسرمایہ کھیت، فیکٹریاں، گاڑیاں، ادارے اور نوٹوں سے لبالب بھری تجوریاں نہیں ہوتیں لوگ ہوتے ہیں۔ اپنے ملک سے محبت کرنے والے ہنر مند لوگ۔ کسی قوم کا ایک دانشور، عالم یا سائنسدان حالات سے پریشان ہو کر نقل مکانی کر جائے، یاڈاکٹر قدیر جیسا عظیم محسن اور ہیرو ایک طویل عرصے بددلی اور مایوسی کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو جائے تو اس قوم سے بڑی قلاش قوم کوئی اور نہیں سکتی۔ خواہ اس کے سارے پہاڑ سونے کے بن جائیں۔ ساری ندیوں، سارے دریاؤں اور سارے بیراجوں سے تیل بہنے لگے اور اس کے سارے درختوں سے اشرفیاں اترنے لگیں۔ پاکستان سے عشق کرنے والا یہ عظیم انسان یوں دکھ اور ملال کو سمیٹ کر رخصت ہوا جس نے من حیث القوم ہمارے چہروں پر سے چادر سرکا دی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہا کرتے تھے گھر جیسا بھی ہے، ہے تو اپنا۔ ہم اسے چھوڑ کر کہا ں جائیں اس لئے لگے ہوئے ہیں کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں آخری سانس تک۔ ڈاکٹر صاحب سے عام لوگوں کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ جب وہ بیمار ہو کر آغاخان ہسپتال میں داخل ہوئے تو اس کے بیرونی دروازے کے باہر گھاس پر ڈاکٹر صاحب کی تصویروں کے ساتھ پھولوں کے گلدستوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ معصوم بچے، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اور بزرگ ڈاکٹر صاحب کی تصویروں کو چوم رہے تھے اور وہاں پر پھول رکھ کر ان سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سادہ طبیعت انسان تھے۔ جیب میں پاکٹ سائیزقرآن مجید رکھتے تھے صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ حضورﷺکا ذکر ہوتا تو آنکھیں نم ہو جاتیں، اب اللہ کے حضور حاضر ہو گئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ دوسرے جہاں میں انہیں بنی آخرں الزماں ﷺ کی شفاعت یقینی طورپر نصیب ہوئی ہوگی۔ دعا ہے اللہ رب العزت اس عظیم انسان کے درجات بلند کرے۔