پچھلے سال تین جنوری کو سہراب گوٹھ (کراچی) کے ایک ہوٹل سے لاپتہ ہونے والے خوبرو قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کے مارنے کی خبر تیرہ جنوری کو ایس ایس پی راو انوار اینڈ کمپنی نے بریک کی۔خبر میں قوم کو بتایا گیا کہ نقیب اللہ محسود تین اور دہشتگردوں سمیت پولیس مقابلے میں مارا گیا او ر ان کے قبضے سے بھاری اسلحہ بھی برآمد کرلیاگیاہے ۔انہی دنوں وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے پولیس مقابلوں کے مذکورہ سپیشلسٹ رائوانوار نے الزام لگایا کہ’’ نقیب اللہ محسود نے دہشتگردی کی تربیت میران شاہ سے حاصل کی تھی اور وہ دو پولیس اہلکاروں کے قتل کیس میں بھی مطلوب تھا۔ انہوں نے تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر شیر محسود کے کہنے پر مچھر کالونی کے علاقے میں تحریک طالبان کو منظم کیا ، یہی نہیں بلکہ اس دہشتگرد نے پاک فوج سے تعلق کے شبہ میں اپنے ہی رشتے دار اعجاز محسود کو بھی قتل کیا ۔ رائوانوار نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہاکہ نقیب اللہ نے اپنے دو اور دہشتگردساتھیوں کے ساتھ مل کر فوجی قافلے کو بھی نشانہ بنایا تھااور وہ بے نظیر بھٹو کی اٹھارہ اکتوبر کی ریلی میں دھماکے کے ماسٹر مائنڈ وہاب کا قریبی ساتھی بھی تھا‘‘۔گویاکہ رائوانوار کے اس انٹرویو کی روسے نقیب اللہ محسود وہ خطرناک دہشتگرد تھا جو نہ صرف دوپولیس اہلکاروں کومارنے، فوجی قافلے پر حملہ کر نے اور بینظیر بھٹو ریلی کے ماسٹر مائنڈکا قریبی ساتھی تھا بلکہ شہر قائد کی مچھر کالونی میں باقاعدہ طور پرتحریک طالبان کو منظم کرنے کے بھی ذمے دار تھے ۔ پولیس کے جعلی مقابلوں میں مہارت رکھنے والا رائو انوار یہ بھول گیا تھا کہ چند لمحوں کیلئے تو وہ لوگوں کو بیوقوف بناسکتاہے لیکن پوری عمر کیلئے نہیں۔وہ یہ بھی بھول چکے تھے کہ خداکے ہاں دیر ضرور ہوتاہے مگر اندھیر نہیں ۔ شاید راوانوار کو یہ علم بھی نہیںتھا کہ تاریک راہوں میں مارے جانے والے مظلوموں کی روحیںجب عالم ارواح کی طرف محو پرواز ہوتی ہیں تو وہاں پرکس ناز واداسے ان کی شنوائی ہوتی ہے ؟نقیب اللہ محسود بے گناہ تھے اسی لئے تو سب سے پہلے ان کی زندگی سے پیار،خوبصورت لمبی زلفوںاور ماڈلنگ کے فن سے محبت نے یہ گواہی دے دی کہ زندگی کو جنون کی حدتک انجوائے کرنے والے لوگ دہشتگرد اور ناہی دہشتگردوں کے ہم پیشہ وہم مشرب ہوسکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ان کے حق میں اٹھنے والی لاکھوں انسانوں کی آواز(زبان خلق) اس بات کی دلیل تھی کہ نقیب اللہ ایک ایسے ناکردہ جرم کی پاداش میں مارے گئے ہیں جس کا وہ سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔تیسرا یہ کہ نقیب اللہ محسود کی شہادت کے بارہ مہینے بارہ دن بعد اس ملک کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے بھی ان کی عصمت اور بے گناہی کا پروانہ جاری کردیاکہ نقیب اللہ محسود بے گناہ اور معصوم تھے ۔کراچی کی انسداددہشتگردی کی عدالت نے چندروزپہلے 25 جنوری کو اپنے فیصلے میں لکھاہے کہ’’ پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ سے معلوم ہوتاہے کہ شاہ لطیف تھانے کے ایس ایچ او امان اللہ مروت کی سربراہی میں پولیس کو بکتر بند گاڑی میں گشت کے دوران خفیہ اداروں سے معلومات ملی کہ عثمان خاصخیلی گوٹھ میں داعش اور لشکر جھنگوی کے دہشتگرد ایک سیف ہائوس میں موجود ہیں۔ ایس ایچ او نے حکام بالا کو آگاہ کیا اور مزید نفری طلب کی ، جس کے بعد کیے گئے مقابلے میں نقیب اللہ محسود اپنے دو اور ساتھیوں سمیت مارا گیا۔عدالت کے فیصلے کے مطابق پولیس کے چند اہلکاروں کی وہاں پر موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ موبائل فون کے ریکارڈ کے تجربے کے مطابق ایس ایس پی رائو انوار کی بھی وہاں پر موجودگی کا پتہ چلتاہے۔عدالت کے مطابق رائو انوار کے میڈیا میں دعوے اور کمیٹی کے روبرو بیان کے برعکس نقیب اللہ کی کسی دہشت گرد ی کی سرگرمی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد اور فرانزک رپورٹ الزامات کو ثابت نہیں کرتے لہٰذا نقیب اللہ محسود کے خلاف دہشت گردی،اسلحہ وبارودرکھنے کے الزام میں پانچوں مقدمات خارج کیے جاتے ہیں‘‘۔یوں کہا جاسکتاہے کہ نقیب اللہ محسود اور ان کے ساتھ تین دیگر ساتھیوں کو رائو انوار اینڈ کمپنی کے جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے تمام ترالزامات اب بے بنیاد ثابت ہوچکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا 2019 ء کے نئے پاکستان میں نقیب اللہ محسود کے خاندان کے ساتھ انصاف ہوتاہے یا نہیں ؟ کیا محمد خان محسود( نقیب محسود کا باپ ) کے ساتھ کیے گئے وہ وعدے پورے ہونگے جن کے دائیں طرف انہی دنوں میںکھڑے ہوکر عمران خان صاحب نے وعدہ کیاتھا کہ وہ انصاف فراہم کرکے دم لیں گے ۔ پچھلے سال خود آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ صاحب محمدخان محسود کے گھر پران سے تعزیت کیلئے گئے تھے اور ان کو انصاف دلانے کا وعدہ کیاتھا۔شایداُسی امید کے چراغ کو اپنے دل میں زندہ لیے محمدخان محسود نے اپنے جگر گوشے کی پہلی برسی کے موقع پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہاتھاکہ انہیں امیدہے کہ ان کے خاندان کو انصاف ملے گا۔بے شک ،نقیب محسود کے بارے میں نقیب محسود قتل کیس سے متعلق رائو انوار اینڈکمپنی کے سارے الزامات اور اتہامات جھوٹے ثابت ہوئے اور اس کیس میں اب دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی ہوگیا ہے، سو امید کی جاتی ہے کہ ان کے بوڑھے والد اور ننھے منھے پھول جیسے بچوں کے ساتھ اب انصاف کرنے میں مزید تاخیر نہیں کی جائے گی۔