میرے عزیز ہم وطنو! تسلیمات اور بہت ساری دعائیں: جنوری کامہینہ ہے اور یقین جانیے اس یخ بستہ مہینے میں آپ مجھے بہت یاد آتے ہو۔خصوصاً وہ لوگ تواس ابدی مسافر کے حافظے سے محو ہونے کانام نہیں لیتا جنہوں نے دوسال پہلے نہ صرف میرے بے جاں جسد کو محمدخان محسود ، عاطف اللہ ، علینا اورنائلہ بی بی کے حوالے کیاتھابلکہ میرا نام دہشتگردی کے بلیک لسٹ سے بھی نکالاتھا۔میں ان لوگوں کا یہ احسان بھی فراموش نہیں کرسکتاجن ہی کی احتجاجوںکے طفیل میرے اورسینکڑوں دیگرنقیبوں کا سفاک قاتل اگرچہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں گیاتاہم اتنا ضرور ہواتھا کہ اب بھرے بازار میں مکے لہراسکتاہے اور نہ ہی کسی کو اپنا چہرہ دکھانے کا قابل رہ گیاہے ۔عزیزو! ایک بار پھر میری طرف سے دعا اور سلام قبول کیجیے ۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہاں آئے مجھے وہ سبھی نعمتیں مل گئیں ہیں جوحسب وعدہ ایک شہید کوملتی ہیں۔یہاں کاآب وہوا سال بھر معتدل رہتاہے۔سلسبیل اور کوثر کی سیر کرنا تومیں نے صبح وشام کامعمول بنایا ہوا ہے۔ شراب طہوراورمختلف انواع والوان کے الَذمیوہ جات کے باغات کے بارے میں تمہیںبتانا میںمناسب نہیں سمجھتاکیونکہ ایک تو آپ کوشاید یقین نہ آئے دوسرا یہ کہ یقین اگرآبھی جائے لیکن آپ کا بھائی آپ کے منہ میں مفت کاپانی بھر آنے کی اذیت دینانہیں چاہتا۔بہر صورت میں تم سے کس کس نعمت اور کونسی خوشی کا تذکرہ کروں کیونکہ ان انعامات کی لذتوںکے بارے میں الَذ اورکثرت کے بارے میںلامتناہی جیسے الفاظ کا استعمال بھی مجھے حقیرلگتاہے۔ عزیزاں ِ مَن! یہاں آئے جو چیز میرے لئے پیہم سوہانِ روح بنی ہوئی تھی وہ میرا بوڑھے باپ محمد خان محسود کی در در کی ٹھوکریں اور پریشانی تھی۔آپ کو بخوبی علم ہے کہ انصاف بانٹنے کا ایسادروازہ نہیں رہ گیا جس پراس بے بس محسودنے دستک نہیں دی ہو؟ آپ بہتر جانتے ہیں کہ اس بوڑھے نے انصاف کے حصول کی خاطر گاہے گاہے سمجھوتے بھی کیے اور آٹھ آٹھ آنسو بھی بہائے ۔ حالانکہ ایک پشتون اور پھر ٹھیٹھ قبائلی پشتون کیلئے رونا اور سمجھوتہ کرنا ایک ناقابل برداشت رسک ہوتاہے۔ اس بارے میںکوئٹہ کے ایک درویش شاعر نے کیاخوب کہاہے… زما پشتون غرور بہ نور سومرہ پہ خاورو لڑے ستا پہ یاری کے تر ژڑا پورے را ورسیدم ’’ میرے پشتون غرور کو اورکتنا خاک میں ملائوگے ؟تیرے عشق میں اب تومیں رونے کے مقام تک بھی آپہنچاہوں‘‘۔ میرابوڑھاوالدمیرے لئے انصاف مانگتے مانگتے تھک گئے تھے اوراتنے تھک گئے کہ کمزورسمجھ کر ایک جان لیوا بیماری بھی اُن پرحملہ آور ہوئی ۔علالت کے باوجود اس بوڑھے نے اپنے بے گناہ بیٹے کے قاتلوں کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ علاج کیلئے شاید انہوں شہر اقتدار کے ایک اسپتال کا انتخاب بھی اس لئے کیاتھاکہ’’ جائے انصاف‘‘ میں پیشی کیلئے بروقت پہنچنے میں کہیں دیر نہ لگ جائے ۔دارِنصاف میں جب بھی وہ پیش ہوتے تووہیل چیئر کا استعمال کرتے۔جب امیدکی سبھی چراغیںان کو بجھتے ہوئے محسوس ہوئے۔جب انہوں نے موت کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا توایک دن وہیل چیئر پر بیٹھے انہوں نے شدید مایوسی کے عالم میں کہاتھاکہ’’ اتنا ظلم تو ابرہہ اور یزید نے بھی نہیں کیا تھا جتنا ظلم رائو انوار نے میرے بیٹے کے اوپر کیاہے۔ میں روز عدالتوں کے چکر لگاتارہاہوںاور مجھے بڑے بااثر لوگوں نے انصاف فراہم کرنے کی یقین دلائی ہے لیکن ابھی تک کچھ پیش رفت نہیں ہوئی ہے ‘‘۔ دوبرس گزرنے کے بعدبھی جب منصف ِ وقت میرے والد کو انصاف نہ دلاسکا، تو موت نے وفاکرتے ہوئے انہیں گلے لگا اور اسے اپنی آغوش میں ابدی نیند سلادیا۔ میرے عزیزہم وطنو! آپ یقین کرلیں ، الحمدللہ میری روح میں چبھنے والا وہی کانٹا اب نہیں رہا،کیونکہ میرابابا نے اب عدالتوں کے مفت چکر لگانے اور دروازوں پر دستکیں دینے سے جاں چھڑالی ہے ۔وہ اب اُس سرزمیں سے ہجرت کرچکا ہیں جہاں انصاف مانگنا جرم سمجھاجاتاہے ۔ یہاں پہنچ کر میرا بابا اب سارے غموں سے آزاد ہوچکاہے اور میرے پہلو میں آباد ہیں۔ دارعقباآئے ان کی نئی زندگی کو ڈیڑہ مہینہ بیت گیاہے لیکن میں نے کبھی ان کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھے ہیں اور نہ ہی اسے کبھی کبیدہ خاطر پایاہے۔ دسمبر کی ابتدائی دنوں میںان سے میری بہت طویل نشستیں ہوئیں اورہم نے ایک دوسرے کی محبت میں کلیجہ خوب ٹھنڈاکیا-جو نعمتیں مجھے ملی ہیں انہی سے ابا جان کی بھی خاطر تواضع کی جاتی ہے، کیونکہ ایک تو وہ خود بڑانیک اور خدا ترس بندہ تھا ، اس پرمستزاد یہ کہ وہ ایک شہید کا باپ ہے-البتہ اپنے پیارے پوتے عاطف اللہ اور پوتیوںعلینا اور نائلہ بی بی کے مستقبل کی فکرانہیں ضرور دامنگیر ہے، بالخصوص عاطف اللہ کی۔انہیں اس بات کا خوف ہے کہ کہیں یہ پھول بھی ایک دن وہی خزاں یااس کی باقیات اپنے پاوں تلے روند نہ ڈالے جس نے تیرے لمبی زلفوں، تراشیدہ داڑھی اور سرخ و سفید گالوں کو ایک جعلی پولیس انکاونٹر میں خون میں نہلادیاتھا۔تاہم میں انہیں بار بار تسلی دیتا ہوں کہ اباجاں ! خاطر جمع رکھیے، میرایقین ہے کہ عاطف کو اللہ تعالی اپنے حفظ و امان میں رکھے گا ۔ میرایقین ہے کہ باطل مٹنے والا ہے اور زیادہ دیر زندہ نہیں رہے گا (اِن الباطل َ کانَ زَہوقاً)۔ میںانہیں یقین دلاتا ہوں کہ اب جا بجا حق کی آوازیں اب بلندہورہی ہیںاور باطل کابول بالاختم ہونے والاہے۔ خدا کے ہاں دیرہے لیکن اندھیرہرگز نہیں ہے۔ والسلام ، تمہارا شہید بھائی : نقیب اللہ محسود