لاہور (نامہ نگار خصوصی ) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سردار محمد شمیم خان نے کہا ہے اگر ہم محفوظ، خوشحال اور ترقی کرتا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں تو ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا اور آئین اور قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا اور اس میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے ماڈرن تکنیکی بنیادوں پر سسٹم کو اپ گریڈ کرنا ہے ۔ ہم نے تہیہ کیا ہے کہ ایک محفوظ اور خوشحال پاکستان کا خواب پورا کرنا ہے ۔ جرائم کے خاتمے کے لئے پولیس، پراسیکیوشن اور عدلیہ کا مشترکہ کردار بہت اہم ہے ۔ معاشی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی ترقی کا دارومدار محفوظ معاشرے سے منسلک ہوتا ہے ۔پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں کریمینل جسٹس سسٹم میں بہتری کے حوالے سے ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کے اختتامی روز خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہر مہذب معاشرے میں مجرموں کیلئے قرار واقعی سزا کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے تاکہ جرائم کی شرح میں کمی ہو سکے ۔ کسی بھی فوجداری مقدمے کی بنیاد تفتیش پر ہوتی ہے اگر تفتیشی ادارے اپنی ذمہ داری ایمانداری سے پوری نہیں کریں گے اور جدید تقاضوں کے مطابق تفتیشی طریقہ کار کو نہیں اپنائیں گے تو مجرموں کو سزا ہونے کے امکانات کم ہو جائیں گے ۔ اسی طرح عدالتوں میں مقدمات چالان پیش کرنے سے لیکر شواہد اور گواہان کی دستیابی کی ذمہ داری پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ پر عائد ہوتی ہے اور دستیاب شواہد و گواہان کی روشنی میں جلد اور معیاری انصاف کی فراہمی عدلیہ کا کام ہے ، کسی بھی مقدمے میں غیر ضروری التواء مقدمے پر بری طرح اثرانداز ہوتا ہے ۔چیف جسٹس نے ورکشاپ کے شرکائ، منتظمین اور انسٹرکٹرز میں شیلڈز و اسناد بھی تقسیم کیں۔جسٹس علی باقر نجفی نے کہا ہماری پولیس معاشرے میں امن و امان کو قائم رکھنے اور ہم سب کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتی ہے ، ہم کسی صورت بھی پولیس کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرسکتے ، ہمیں فوجداری نظام انصاف کو بہتر بنانے کے لئے بہت کام کرنا ہے ۔ اس موقع پر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن، رجسٹرار چودھری ہمایوں امتیاز، ڈی جی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی عبدالستار، سیکرٹری پراسیکیوشن ندیم اسلم چودھری، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سردار جمال احمد سکھیرا ، ایڈیشنل آئی جی ابوبکر خدابخش، برطانوی ہائی کمیشن کے نمائندے ، برطانوی میٹروپولیٹن پولیس کے افسران، جوڈیشل افسران، پراسیکیوٹرز، پولیس افسران اور وکلاء بھی موجود تھے ۔ ڈی جی اکیڈمی عبدالستار اور سکاٹ لینڈ یارڈ اور برطانوی ہائی کمیشن کے نمائندوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔