اگر آپ مال روڈ پر ۔۔۔ جی پی او چوک سے استنبول چوک کی طرف جائیں، تو انارکلی چوک کے بائیں جانب "محلہ لنگرخاں بلوچ" کا بورڈ، نہایت نمایاں انداز میں آویزاں ہے،ویسے طویل عرصے سے یہ سارا علاقہ "پرانی انارکلی"کے نام سے موسوم ہے اور گذشتہ کچھ عرصے سے لاہورمیٹروپولیٹن کارپوریشن کی طرف سے "محلہ لنگر خاں بلوچ"کا سائن بورڈ آراستہ کیا گیا ہے، اگرچہ گزرنے والوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں، اور شایدیہ سطور پڑھ کر بھی۔۔۔ کوئی اس کوباور نہ کر سکے۔بہرحال۔۔۔ لاہور کی بیرونی آبادی، ہمایوں کے عہد میں شروع ہوئی جس کا زیادہ تر پھیلاؤ مشرق ، جنوب مشرق اور جنوب کی طرف رہا ، یہاں تک کہ دیکھتے ہی دیکھتے باہر کی آبادی اصل شہر سے دوچند ہوگئی، کنیہا لال کے مطابق : سب سے پہلے لنگر خاں بلوچ لاہور آیا، بادشاہ نے اس کو جاگیر اور لاہور میں رہنے کی اجازت بخشی، جس نے لاہور کے باہر بہ سمت جنوب اپنا الگ محلہ آباد کیا، جس میں بڑی بڑی حویلیاں اور پختہ مکانات تعمیر ہوئے۔ لنگر خاں شہنشاہ بابر کے مصاحبین میں سے تھا، 1526ء میں جب بابر نے سندھ کے حاکم حسین ارگھوان کے ذریعہ ملتان پر قبضہ کیا، تو اپنے بیٹے مرزا عسکری کو اس کا حکمران مقرر کر کے اسے ملتان روانہ کرتے ہوئے ، لنگر خاں کو اس کے ہمراہ بھیجا۔ کنہیا لال اس کوچے کا تذکرہ "محلہ سیّد چراغ شاہ گیلانی "کے نام سے بھی کرتا ہے، وہ لکھتا ہے کہ : "یہ محلہ سیّد موج دریا بخاری کے محلے کے شرق کی سمت آباد تھا، جس میں ساداتِ گیلانی سکونت فرما تھے، دراصل یہ علاقہ ، ابتدائی طور پر "محلہ لنگر خاں بلوچ"سے موسوم تھا،۔۔۔ لنگر خاں کی، گیلانی سادات سے عقیدت و ارادت کے سبب ،یہ آبادی "محلہ سیّد چراغ شاہ گیلانی"اور "رسول پورہ"کے نام سے معروف ہوگئی۔ یہی وہ مقام ہے، جس کے ایک طرف گیلانی سادات کے فردِ جلیل حضرت سیّد عبدالرزاق گیلانی المعروف حضرت شاہ چراغ لاہوری اور آپ کے خانوادے کی عظیم المرتبت ہستیاں آسودہ ہیں، جن کے 391ویں سالانہ عرس کا افتتاح اور رسمِ چادر پوشی کی سعادت راقم کو ایک روز قبل ، 17ربیع الثانی بمطابق 14دسمبر (ہفتہ) بعد از نمازِ ظہر، آپ کے آستاں پر میسر آئی۔ایوانِ اوقاف کی سات منزلہ وسیع وعریض عمارت ، آپ ہی کے مزار سے متصل ہے، ماضی میں دربار حضرت شاہ چراغ سے ملحق 192کنال رقبہ تھا ،جس میں ازاں بعد لاہور ہائی کورٹ، اسٹیٹ بینک کی پرانی بلڈنگ یعنی موجودہ سپریم کورٹ، جنرل پوسٹ آفس(جی پی او) اور اکاؤنٹنٹ جنرل (اے ، جی آفس) وغیرہ کی معتبر عمارات، اسی جلیل القدر ہستی کے مزار سے متصل اراضی پر قائم ہیں۔ آپ کے مزار کے مغرب میں، ایک پُرشکوہ مسجد تعمیر شدہ ہے، اگرچہ اس کی ظاہری حالت، اب اُس قدرعالی شان تو نہ ہے، جیسے کہ کبھی ماضی میں ہوتی ہوگی، تاہم وہ مغلیہ عہد کے طرزِ تعمیر سے پوری طرح آراستہ ، پختہ چونہ گچ ، جس کی پانچ محرابیں اور اوپر پانچ عالی شان گنبد۔۔۔ درمیانی گنبد قدرے بڑا اور درمیانی محراب قدرے بلند ہے، ماضی میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر علامہ علاء الدین صدیقی، اس مسجد میں خطبہ جمعہ دیتے رہے۔ ایوانِ اوقاف کے علاوہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے متعلقین کی اکثریت نمازِ جمعہ میں یہاں پر حاضر ہوتی ہے، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اس مسجد کی اَپ گریڈیشن کی طرف خصوصی طور متوجہ رہے۔ یہ مزار اور مسجد 1973ء میں محکمہ اوقاف کی تحویل میں آیا، جس کے بعد سے اس کی تزئین و آرائش کے لیے مختلف منصوبے رُو بہ عمل رہے۔"تجدید لاہور"کے نام سے اسی نوعیت کا ایک منصوبہ سال 2000ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچا، جس کا افتتاح اُس وقت کے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے اس مزار پرحاضری دے کر کیا، اس مزار اور مسجد سے ملحق "شاہ چراغ بلڈنگ"کے نام سے ، برطانوی عہد میں تعمیر شدہ عمارت بھی ہے، جس میں انگریز دور کی جھلک نمایاں ہے، جو 1875ء سے 1880ء کے ایسے دورانیے میں تعمیر ہوئی، جب مغلیہ جاہ وجلال ماند پڑچکا اور برصغیر میں ایک نئی ثقافت جنم لے رہی تھی۔ مغلائی اور برطانوی نو آبادیاتی طرزِ تعمیر کے امتزاج کی حامل یہ عمارت فنِ تعمیر کے حوالے سے "ٹیراکوٹا"سے موسوم ہے۔ بہرحال اس سارے علاقے کی مرکزیت ایک تو حضرت شاہ چراغ کے سبب تھی اور دوسری حضرت میراں موج دریا بخاریؒ کی نسبت سے ، جن کا مزار ۔۔۔اسی شاہراہِ قائداعظم سے، جنرل پوسٹ آفس کے پاس سے، اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفترکے بالمقابل، کسٹم ہاؤس سے متصل ، دائیں جانب ہے۔ جس کے اردگرد کا علاقہ اب"اورنج لائن"کے زیر تصرف ہے، مغل بادشاہ جلال الدین اکبر آپ کا معتقد تھا، اور چتوڑ کی مہم سے آپ کی خصوصی توجہات سے سرخروئی کے بعد، اس نے بٹالہ میں آپ کی خانقاہ کے لیے خصوصی جاگیر وقف کی اور لاہور میں آپ کے مزار کی عمارت بھی تعمیر کروائی، آپ کا 456واں سالانہ عرس آج اختتام پذیر ہوگا۔ حضرت شاہ چراغ قادریؒ کی پھوپھی صاحبہ، جن کو "وڈی بی بی صاحبہ"کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا،حضرت موج دریابخاریؒ کے عقد میں تھی، اسی طرح حضرت سید عبدالرزاقؒ پیر مکی، جن کے مزار اقدس کے "نیلے گنبد"کی نسبت سے انارکلی کی سائیکل مارکیٹ اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا ایریا"نیلا گنبد"کے نام سے مشہور ہے، بھی حضرت موج دریا بخاریؒ کے خلفاء میں سے تھے، گویا لاہور میں اُس وقت یہ قریہ ۔۔۔ ان عظیم المرتبت روحانی خانوادوں کے فیض وجود کی نسبت سے دینی و روحانی مرکزیت کا حامل تھا۔ سیّد عبدالرزاق گیلانیؒ المعروف حضرت شاہ چراغ ؒ لاہوری کی ولادت کے وقت، آپ کے دادا حضرت عبدالقادرؒ ثالث کا یہ فرمان کہ: "ہمارے ہاں وہ چراغ پیدا ہوا ہے، جو اس خاندان کو منور کردے گا" تاریخ میں بہت معروف ہوا، اسی نسبت سے آپؒ "شاہ چراغ"کہلائے۔ مغل بادشاہ شاہ جہاں آپ کا از حد عقیدت مند ، اور آپ کے خانوادے سے تعلق کی مضبوطی کا خواہاں اور اس بات کا آرزومندتھا ، کہ آپ کے صاحبزادے کے ساتھ اس کی بیٹی کا عقد ہو جائے، لیکن آپ کے ہاں ہمیشہ فقر و غنا اور زہد و وراع کو ترجیح میسر رہی۔ آپ کا تعلق اوچ شریف کے گیلانی خانوادے سے تھا، آپؒ کا سلسلہ نسب14واسطوں سے پیرانِ پیر حضرت الشیخ السیّد عبدالقادر جیلانیؒ سے متصل ہوتا ہے۔ اوکاڑہ کے نواح میں حضرت غوث بالا پیرؒ آپ کے تیسرے دادا تھے۔ بلاشبہ شہرِ لاہور کا ہر قریہ اور ہر کوچہ کسی نہ کسی جید اور ممتاز ومعتبر بزرگ کی نسبت کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ مرورِ زمانہ نے ان میں اکثر کے احوال و واقعات کو ذہنوں سے محو اور نظروں سے اوجھل کر دیا ہے، بڑی بڑی بلند پایہ شخصیات ، جو کہ خاندانی عظمتوں اور نسبی وجاہتوں کے ساتھ ساتھ روحانی اور دینی اعتبار سے بھی معروف ومعتبر تھیں، ان کے حالات بھی مربوط شکل میں میسر آنے مشکل ہوگئے ہیں۔ بلکہ ان کے خصوصی ایام بھی خاموشی سے گذر جاتے ہیں۔ ان سطور کے ذریعے یہ اہتمام ۔۔۔ دراصل ان کی خدمت میں اپنی محبتوں اور عقیدتوں کا خراج پیش کرنے کا ایک بہانہ ہے۔