پاکستانی قوم عظیم کوہ پیما محمد علی سدپارہ سے محروم ہوگئی۔کوہ پیما کے بیٹے ساجد سدپارہ نے والد کے انتقال کی تصدیق کردی ہے۔2016ء میں جب محمد علی سد پارہ نے نانگا پربت کو موسم سرما میں پہلی بار سر کیاتو ان کی کامیابی کا سورج نصف النہار پر چمکنے لگا،جس کے بعد انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ان کا تعلق اس محنت کش قبیلے سے تھا‘جفاکشی اورکفایت شعاری جس کے خمیر میں شامل ہے۔کوہ پیمائوں کا سامان اٹھا اٹھا کر انہوں نے گھر کا چولہا جلایا۔وسائل کی کمی کے باعث انتہائی مہنگی کٹ خریدنے کی سکت نہ تھی ۔عزم و ارادہ پختہ تھا۔ اسی بنا پر کے ٹو کو موسم سرما میں سر کرنے کا چیلنج قبول کیا۔ملک میں سینکڑوں نوجوان محمد علی سدپارہ بننا چاہتے ہیں‘ ان کے خواب کے ٹو کی بلندی سے بلند تر ہیں۔ رہبر ورہنمانہ ہونے کی بنا پر ان کے خواب ٹوٹ رہے ہیں۔ حکومت گلگت بلتستان نے محمد علی سدپارہ کے نام سے کوہ پیمائی کے لیے سکول قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سکردو ایئرپورٹ عظیم کوہ پیما سے منسوب کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس کے علاوہ قومی ہیرو کے نام سے سکالر شپ جاری کی جارہی ہے۔کوہ پیمائوں کو ریسکیو کرنے کا معاملہ بہتر بنایاجائے۔نوجوانوں کی تربیت کے لیے سکولز کھولے جائیں۔ایسے شوق والے افراد کی مالی مدد کی جائے۔ محمد علی سدپارہ نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا لیکن انہوں نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا، وہ واقعی موت کو گلے لگانے کے مترادف تھا۔ سخت جان دھرتی کے بیٹے کو کے ٹو نے آغوش میں لے لیا۔ اللہ تعالیٰ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔