محکمہ صحت پنجاب نے صوبہ کے تمام تحصیل اور ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں بڑے پیمانے پر ادویات کا سٹاک زائد المیعاد ہونے سے پہلے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ محکمہ صحت پنجاب میں اندھیر نگری چوپٹ راج کے مصداق جس کا جہاں ہاتھ پڑتا ہے لوٹ مار کر رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق محکمہ صحت کے افسران نے پنجاب میلینیم ڈویلپمنٹ گول پروگرام کے تحت مبینہ طور پر 80لاکھ کی رقم خرد برد کی ہے۔ جس میں پٹرول اور ادویات کی خریداری کی مد میں بوگس بلز کے ذریعے 19لاکھ ہڑپ کئے گئے ۔ محکمہ صحت میں کرپشن کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کو جنرل ہسپتال میں ادویات کی خریداری میں کروڑوں کی کرپشن کے خلاف درخواست پر انکوائری نہ کرنے پر سیکرٹری ہیلتھ سے مارچ 2018میں وضاحت طلب کرنا پڑی تھی۔ آڈیٹر جنرل کی ایک سپیشل رپورٹ کے مطابق افسر شاہی نے من پسند کمپنیوں کو نوازنے کے لیے مہنگے داموں ادویات خرید کر قومی خزانہ کو 62کروڑ کا نقصان پہنچایا ، جب معاملہ سیکرٹری صحت کے علم میں لایا گیا تو سیکرٹری صحت علی جان اور محکمہ کے دیگر افسران نے سب اچھا کی رپورٹ کرکے کرپشن کو دبانے کی کوشش کی مگر آڈیٹر جنرل کی آنکھ سے نہ چھپا پائے۔ محکمہ صحت میں اقربا پروری کا یہ عالم ہے کہ افسر شاہی نے سیاسی دبائو میں آ کر ہیپا ٹائٹس سی کے مرض کے لیے 70ہزار مریضوں کی ادویات خریدارلیں جو رواں برس زائد المیعاد ہو رہی ہیں اور محکمہ سٹاک کو مختلف ہسپتالوں کو زبردستی سپلائی کررہا ہے۔ اب مبینہ کرپشن چھپانے کے لیے زائد المیعاد ہونے والی ادویات کو ٹھکانے لگانے کے لیے رپورٹ رپورٹ کھیلنے ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔ بہتر ہو گا حکومت اس حوالے سے غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کے ذریعے قومی خزانہ سے کھلواڑ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے تاکہ مستقبل میں لوٹ مار کا سلسلہ تھم سکے۔