ترجمان پنجاب حکومت محترمہ سمیرا ملک ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ 92 نیوز کی 5 ویں سالگرہ کی تقریب جھوک سرائیکی ملتان میں کرانے پر مبارکباد دیتی ہوں کہ 92 نیوز اخبار اور چینل کی بہت خدمات ہیں ، اس ادارے نے سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کو بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ انہوں نے کہا کہ 92 نیوز میں آپ کا کالم ’’ وسیب ‘‘ توجہ سے پڑھتی ہوں ، اس سے وسیب کی تاریخ اور جغرافیہ کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ مسائل کا ادراک بھی ہوتا ہے ۔ میڈیا کی مثبت تنقید کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں مگر حکومت کے اچھے اقدامات کی تعریف بھی ہونی چاہئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار کا تعلق وسیب سے ہے ، وہ کفایت شعاری اور میرٹ پر کام کر رہے ہیں ، اس لئے ان کو برداشت نہیں کیا جا رہا اور طرح طرح کی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں ۔ میں نے محترمہ کو کہا کہ شاید آپ کے علم میں یہ بات نہ ہو کہ جب عثمان بزدار کا انتخاب ہوا تو وسیب میں جشن منایا گیا اور سرائیکی شعراء نے خوشی کے گیت لکھے ، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک وسیب کے لوگوں کی توقعات پوری نہیں ہوئیں ۔ سمیرا ملک نے کہا کہ ’’ دیر ہے اندھیر نہیں ‘‘ہے ، وسیب کی توقعات پوری ہونگی کہ سردار عثمان خان بزدار پنجاب کے ان اضلاع میں یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لا رہے ہیں جہاں اعلیٰ تعلیم ایک خواب تھا ، تھل ، لیہ ، مری ، چکوال ، ننکانہ صاحب ، راولپنڈی ،تونسہ ، ڈیرہ غازی خان اور میانوالی میں 8 نئی یونیورسٹیاں اور دیگر انسٹیٹیوٹس کے ساتھ ملتان، بہاولپور ،ڈی جی خان ، اٹک ، میانوالی ، لیہ ، بہاولنگر اور راجن پور میں 9 نئے ہسپتال بنائے جا رہے ہیں ۔ ترقی کے اس سفر میں پیسہ عوام کے بہتر مستقبل پر خرچ ہو رہا ہے ، جہاں بہتر علاج کی سہولیات، بہتر تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کیلئے نوکریوں کے مواقع پیدا کئے جا رہے ہیں ، ہنر مند نوجوان پروگرام کے ذریعے یوتھ کو صنعتی شعبہ میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار کیا جا رہا ہے ۔ ایس ایم ای سیکٹر کے فروغ اور نئے کاروبار کے آغاز کرنے کیلئے نوجوانوں کو 9 ارب کے قرضے فراہم کیئے جا رہے ہیں ۔ صوبہ میں 10 اسپیشل اکنامک زونز پر کام جاری ہے۔ صوبائی حکومت کی طرف سے ترقیاتی اقدامات ہو رہے ہیں مگر وسیب کے لوگ 100 دن میں صوبے کا وعدہ یاد دلاتے نظر آتے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ صوبے کے وعدے کو پس پشت ڈال کر سب سول سیکرٹریٹ قائم کرنے کا وعدہ ہوا ، اس مقصد کیلئے بجٹ میں 3 ارب روپے بھی رکھ دیئے گئے اور تواتر کے ساتھ اعلان کیا جاتا رہا کہ یکم جولائی 2019 ء کو سیکرٹریٹ کام شروع کر دے گا مگر وہ وعدہ بھی وفا نہ ہوا حالانکہ سیکرٹریٹ کسی بھی لحاظ سے صوبے کا متبادل نہیں ہے ۔اندریں حالات وسیب میں مایوسی پائی جاتی ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ڈی جی خان میں کچھ ترقیاتی کام ہو رہے ہیں ، کوہ سلیمان میں چھوٹے ڈیم بنانے کا منصوبہ بھی اناؤنس کیا گیا اور صوبے میں 10 صنعتی زون بنانے کی بات بھی کی گئی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ وسیب کو کتنے صنعتی زون ملتے ہیں ؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح فیصل آباد میں 4 ہزار ایکڑ پر مشتمل علامہ اقبال صنعتی زون قائم کیا گیا ہے اسی طرح کے دس صنعتی زون وسیب میں قائم ہونے چاہئیں کہ سرائیکی وسیب میں خام مال اور افرادی قوت وافر مقدار میں موجود ہے ۔ حکومت کی طرف سے بابا گرو نانک یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ 7 نئی یونیورسٹیوں کے قیام کا اعلان ہوا ہے اور یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ صوبے کے ہر ضلع میں یونیورسٹی قائم کی جائے گی ۔ تعلیم کے حوالے سے یہ خوش آئند اقدام ہے مگر یونیورسٹیوں کا قیام وسیب سے شروع کیا جائے کہ پاکپتن ، وہاڑی ،بہاولنگر ، خانیوال، لیہ ، بھکر ، خوشاب ، میانوالی ، راجن پور ، ٹوبہ ٹیک سنگھ ، چنیوٹ وسیب کے ایسے اضلاع ہیں جہاں کوئی یونیورسٹی نہیں ہے ۔ وسیب کے بہت سے اضلاع ایسے ہیں جہاں یونیورسٹی تو کیا یونیورسٹی کیمپس بھی نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام اضلاع میں یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ تحصیل ہیڈ کوارٹرز میں سب کیمپس قائم کئے جائیں ، اس کے ساتھ وسیب میں کیڈٹ کالجوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔ صدر فاروق خان لغاری دور میں ڈی جی خان میں کیڈٹ کالج کا منصوبہ بنا اور چوٹی روڈ پر کیڈٹ کالج کی تختی بھی آویزاں کر دی گئی ، مگر آج تک وہ کالج نہیں بن سکا ۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ملتان میں کیڈٹ کالج کا منصوبہ دیا جس کے قیام کی نوبت آج تک نہیں آ سکی ۔ اسی طرح خانپور کیڈٹ کالج دس سال سے تکمیل کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ وزیراعلیٰ کو ان مسائل کی طرف فوری توجہ دینا ہوگی ۔ تعلیم صحت روزگار کی فراہمی ریاست کے فرائض میں شامل ہے ، وسیب میں جہاں تعلیم اور روزگار کی صورتحال زبوں تر ہے ، اسی طرح اسی طرح صحت کے مسائل بھی بہت زیادہ ہیں ۔ گزشتہ نصف صدی سے نشتر ہسپتال ملتان کے بعد کوئی بڑا ہسپتال وسیب میں تعمیر نہیں ہو سکا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ نشتر ٹو اور شیخ زید رحیم یارخان ٹو کا اعلان کیا گیا ہے مگر ابھی تک صورتحال نہایت ہی سست روی کا شکار ہے۔ ملتان کا رڈیالوجی چوہدری پرویز الٰہی کا کارنامہ ہے مگر کارڈیالوجی فیز ٹو عرصہ دس سالوں سے زیر التوا چلا آ رہا ہے ۔ فیز ٹو کی تکمیل کے ساتھ ساتھ وسیب کے دوسرے شہروں میں کارڈیالوجی ہسپتالوں کی ضرورت ہے ۔ کم از کم ہر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر پر دل کے ہسپتال بننے چاہئیں ۔ سرائیکی وسیب کو اولیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے، وسیب میں بزرگوں کے مزارات ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ محکمہ اوقاف پنجاب کے پاس سب سے بڑی جاگیریں سرائیکی وسیب کی ہیں ۔ جیسا کہ دربار خواجہ فرید کی وقف اراضی ساڑھے بارہ ہزار ایکڑ ہے مگر وسیب کی مزارات کو بہت کم سہولتیں حاصل ہیں، یہ ٹھیک ہے کہ محکمہ اوقاف کی طرف سے وسیب کے مزارات کی مرمت و دیکھ بھال کیلئے کچھ فنڈز جاری ہوئے ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح داتا دربار لاہور کے منصوبے مکمل کئے گئے اسی طرح وسیب کے منصوبے بھی مکمل کیئے جائیں ۔ ان منصوبہ جات کی تکمیل اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر آج بھی منصوبے مکمل نہ ہوئے تو جس طرح پہلے طعنے ملتے آ رہے ہیں ، ایک طعنے کااور اضافہ ہوگا کہ اگر عثمان بزدار کے دور میں بھی مسئلے حل نہیں ہوئے تو پھر تخت لہور کو دوش کس بات کا ؟