دنیا کی موثر ترین بات مختصر ترین فقرے میں کہی جاسکتی ہے اگر اس میں وزن ہو۔ بے معنی باتیں اکثر طویل ہوتی ہیں اور خوبصورت الفاظ سے ان کا تانا بانا بنا جاتا ہے تاکہ ان کا جھول محسوس نہ ہو۔کانوں کو بھلا لگے اور سننے والا محظوظ ہو۔ صرف ایک فقرے میں بات سمیٹی جاسکتی ہے لیکن اس سے نہ کہنے والے کو تسلی ہوتی ہے نہ سننے والے کو مزا آتا ہے۔اسے لگتا ہے خوامخواہ وقت برباد کیا۔ حالانکہ وقت تو وہ برباد کرتا ہے جو طویل اور پیچیدہ بات کرتا ہے لیکن آپ کے دل کو بھی بھاتا وہی ہے۔ انگریزی کے سیدھے سادے فقرے آئی لو یو کی ٹکر پہ ہماری طرف کیا کیا جغادری فقرے ایجاد ہوئے جنہیں سن کر بجائے اس کے کہ مخاطب ومطلوب میں لطیف جذبات پیدا ہوں ایک قسم کے رونگٹے کھڑے کردینے کا احساس بیدار ہوتا ہے اسے محسوس ہوتاہے کہ وہ مرغزار عشق میں نہیں کارزارحق و باطل میں لات مار کر دھکیل دیا گیا ہے جہاں اس کا سامنا نہ صرف ظالم سماج بلکہ خود محبوب کی مشترکہ نیٹو سے ہے۔اب وہ مومن تو ہے نہیں کہ بے تیغ لڑتا رہے چنانچہ وہ بھی لفظوں کی تلوار سونت لیتا ہے اور مقابل یعنی طرفین کے بزرگوں اور محلے والوں کی صفوں میں درانہ وار گھستا چلا جاتا اور عبرت ناک منطقی انجام سے دوچار ہوتا ہے۔ اب چونکہ اس پسپائی میں رسوائی سے زیادہ مار کٹائی کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئے وہ اپنی موبائل سروس کے مفت گھنٹہ پیکج پہ کئی گئی رات رات بھر طویل جذباتی تقریروں سے جن میں تارے وغیرہ توڑ لانے اور ـ"تمہیں قاضی کے سامنے سے اٹھا لے جائوں گا " قسم کے دھواں دھار وعدوں اور دعوئوں سے فی الفور دست بردار ہوکرغم غلط کرنے کسی اور جگہ ٹرائی مارنے نکل جاتا ہے اور اپنے پیچھے کہے گئے محبت بھرے الفاظ اور عرش شگاف دعوئوں کا ایک ڈھیر چھوڑ جاتا ہے جس سے فریق ثانی اس وقت تک جگالی کرتا رہتا ہے جب تک کوئی اور خاطر خواہ انتظام نہ ہوجائے اور لفظوں، دعوئوں اور وعدوں کی یہ گناہوں سے بھی بھاری گٹھڑی دھرنے کے لئے کوئی مناسب گدھا ارزاں نرخوں پہ دستیاب نہ ہوجائے۔اب ذرا سوچیں، خالی خولی آئی لو یو سے یہ کام لیا جاسکتا تھا؟ کوئی کسی سے کب تک پوچھے کہ نبھا نہیں سکتے تھے تو آئی لو یو کیوں کہا تھا۔اب اس فقرے میں ایسا کیا ہے جس کا حساب لیا جائے اور کھاتے کھولے جائیں۔ہاں حساب ان لمبی لمبی باتوں کا لیا جاسکتا ہے جس کے دوران کیا کیا عہد باندھ لئے گئے تھے یہ ان کی بلا جانے ۔یوں بھی سیدھی سادی محبت بھری محبت میں بھلا یہ ایڈونچر کہاں۔ ہماری طرف اسی واسطے محبت نہیں براہ راست عشق ہوتا ہے جس میں یہ تقریباً طے ہوتا ہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا یعنی کچھ نہیں ہوگا۔ فریقین ایک دوسرے سے اکتا جائیں گے اور تم میں ہمت ہے تو دنیا سے بغاوت کردو کو اگنور کرتے ہوئے شعر کے دوسرے مصرع پہ خوشی خوشی عمل کریں گے۔اسی انجام کو مد نظر رکھتے ہوئے موبائل کمپنیوں نے آپ کی سہولت کے لئے مختلف پیکجز متعارف کروارکھے ہیں جن سے مستفید ہوکر آپ نے کم سے کم وقت میں اس منطقی انجام تک پہنچنا ہوتا ہے۔ جتنی لمبی بات اتنی جلدی انجام۔چنانچہ راتیں اور باتیں کالی ہوتی رہتی ہیں ساتھ ساتھ نامہ اعمال بھی جس کی فکر کسی کو نہیں ہوتی۔ایسے میںمختصر فقرے بس وہی ہوتے ہیں جو ناگفتہ بہ ہوتے ہیں۔یہ تو ہمارے عشق و محبت کا حال ہے جہاں بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔سنا ہے ہمارے بزرگوں میں ایسے شعلہ بیان خطیب گزرے ہیں جو گھنٹوں بلاتعطل نطق کے دریا بہائے جاتے تھے۔حیرت اس پہ نہیں،تعجب اس پہ ہے کہ سننے والے سنا بھی کرتے تھے ۔ جب ایسا موقع آیا کرتا تو قرب وجوار کے دیہات سے لوگ منہ اندھیرے اور و ہ منہ اندھیرے ہی ناشتے کے عادی ہوتے ہیں، دیسی گھی کے پراٹھے اور پیڑے والی لسی پی کر بچے ہوئے پراٹھے ناشتہ دان میں ٹھونس کر مع اہل و عیال جوق در جوق جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہوتے کہ فاضل خطیب کا کوئی ایک لفظ بھی سننے سے نہ رہ جائے۔ لسی پی کر آٹھ آٹھ گھنٹے تقریر سننا کوئی بڑی بات نہیں لیکن لسی پئے بغیر آٹھ گھنٹے مسلسل بولنا بڑے ہنر کا کام ہے۔کسی دل جلے نے کہا تھا کہ خطیب اپنی گہرائی کی کمی لمبائی میں پوری کرلیا کرتے ہیں لیکن برصغیر کی مٹی نے ایسے سپوت بھی جنے ہیں جن کے خطاب میں صرف لمبائی نہیں گہرائی بھی ہوتی تھی۔ پھر بھی بات مختصر ہو تو کیا حرج ہے لیکن اسی مٹی کو مختصر بات مزا نہیں دیتی۔ کلی پھندنے، محاورے شعر مبالغہ اور بہتان کے بغیر تقریر کی لذت بولنے والے تک ہی رہ جاتی ہے۔سننے والے کے دل میں نہیں اترتی۔ اسی مٹی نے آخری داستان گو میر باقر علی کو جنم دیا جن کے ہنر قصہ گوئی کا یہ عالم تھا کہ تین تین دن کسی بیگم کے صرف زیورات کا حال بیان کرنے میں گزر جاتے تھے۔وہ ہمیشہ داستان امیر حمزہ سنایا کرتے اور عمر بھر میں ، جو خاصی طویل تھی،صرف ایک بار اسے ختم کیا ۔ ان ہی کے اجداد میں سے ایک نے بادشاہ وقت کے دربار میں ایک قصہ شروع کیا تو طالب و مطلوب کے وصل میں حیا اور اخلاق کے علاوہ ایک سچ مچ کا پردہ بھی حائل کردیا جو بارہ سال حائل رہا۔ آخرکو بادشاہ کو اس دو نمبری کا علم ہوگیا اور اس نے تڑپ کر جلاد سے تلوار چھین کر بزرگوار کو فوری وصال کا حکم دیا۔یوں یہ بارہ سالہ خواری انجام کو پہنچی۔سرکاری استبداد کی تاریخ میں بزور شمشیر وصل بالجبر کی یہ غالباً پہلی مثال تھی۔ کیا آپ نے غور کیا ہے کہ سچ ہمیشہ بے رنگ بھدا اور سپاٹ ہوتا ہے۔ دو ٹوک اور مختصر لیکن نوکیلا۔ جھوٹ جبکہ کس قدر طویل الجھا ہوا پیچ در پیچ لیکن رنگ برنگا اور ہزار پہلو ہوتا ہے۔ہر پہلو ایک نیا رنگ لئے تاکہ سننے والا لطف اندوز بھی ہو۔سچ کو ایسے کسی نخرے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جسے ماننا ہے مانے جسے نہیں ماننا نہ مانے۔ اسے خود کو ثابت کرنے کے لئے کسی لمبی چوڑی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔یہ ضرورت جھوٹ کو ہوتی ہے کہ اسے دلائل و واقعات کی روشنی میں ثابت کیا جائے۔جھوٹ کبھی مکمل جھوٹ نہیں ہوتا۔ جیسے صرف ریت سے دیوار نہیں اٹھائی جاسکتی ویسے ہی خالص جھوٹ دنیا میں کہیں نہیں پاتا جاتا۔ اس میں تھوڑا سچ ملا کر اسے اس قابل کیا جاتا ہے کہ اسے بولا جاسکے تاکہ سننے والا یقین کرے۔ جیسے سونے میں کھوٹ ملایا جاتا ہے تاکہ زیور گھڑا جاسکے۔سچ ، جھوٹ کے لئے کھوٹ ہے۔اسے ضرورتاً برداشت کیا جاتا ہے۔خالص جھوٹ کتنی دیر ٹکے گا اور اس پہ کون یقین کرے گا۔ اسے ٹکانے اور معتبر بنانے کے لئے بولا جاتا ہے،چلایا جاتا ہے، لفظوں دعوئوں اور وعدوں کے انبار لگائے جاتے ہیں اور خوب شور مچایا جاتا ہے اتنا کہ سچ گھبرا کرراستہ بدل لے لیکن وہ کسی ٹھوس پتھر کی طرح اپنی جگہ پہ مضبوطی سے جما رہتا ہے حتی کہ کذب و دجل کا طوفان تھک ہار کر تھم جاتا ہے۔یہ جنگ جاری رہتی ہے۔ یہ جنگ جاری رہے گی۔کیا آپ نے اس پہ بھی غور کیا کہ احکامات مختصر ہوتے ہیں جبکہ درخواست و التجا طویل ہوتی ہے۔ میدان جنگ میں کماندار مختصر ترین الفاظ میں احکامات جاری کرتے ہیں کیونکہ انہیں پتا ہوتا ہے کہ ان پہ عمل ہونا ہے ان سے لطف اندوز نہیں ہونا اور یہی ہوتا ہے۔ اگر نہیں ہوتا تو نتیجہ احد کا پہاڑ بھی ہوسکتا ہے۔ اللہ کے مبعوث کردہ پیغمبر الوہی سچ کے امین ہوتے ہیں۔ ان پہ اترنے والے احکامات دوٹوک اور مختصر ہوتے ہیں۔ وہ حکمت الہیہ اور شفقت روف الرحیم کے باعث بار بار دہرائے جاتے ہیں لیکن طویل ترین آیت بھی پورے اہتمام کے ساتھ صرف ایک منٹ میں پڑھی جاسکتی ہے۔یہ قادر مطلق کا نطق ہے جسے کسی لمبی چوڑی تمہید کی ضرورت نہیں۔ یہ اس کا کلام ہے جو کہتا ہے کہ جب ہم سچ کو جھوٹ پہ پھینک مارتے ہیں تو وہ اس کا سر توڑ دیتا ہے اور وہ نابود ہوجاتا ہے۔ (۱۸:۲۱) یہ وہ حق تھا جس سے خوف زدہ کفر نے اس کا راستہ روکنے کے لئے جہاں دیگر ہتھکنڈے اختیار کئے وہیں ان کے معروف داستان گو مکہ کے بازاروں میں لوگوں کو جمع کرکے دلفریب طبع زاد داستانیں سنایا کرتے تھے۔ رنگین اور طولانی داستانیں۔جن میں دل الجھ الجھ جاتا تھا اور نفس سوال کرتا تھا کیا ہم مٹی ہوجائیں گے تو دوبارہ اٹھائے جائیں گے؟زندگی ایسی ہی دلفریب و دل شکن داستان ہے۔حق تو مختصر اور دو ٹوک ہے بس وہ ہمیں خوش نہیں آتا۔