لاہور(انور حسین سمرائ) پنجاب حکومت نے مختلف محکموں کے چھ کلسٹر بنا کرگریڈ 21کے افسران کو بطور سربراہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری تعینات کرنے کی پالیسی پر عملدرآمد شروع کردیا ، ابتدائی طور پر تین افسران کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری تعینات کیا گیا ہے لیکن تین ماہ گزرنے کے باوجود ان پوسٹوں کی جاب ڈسکرپشن طے کی گئی نہ ہی اختیارات کا تعین کیا گیا ہے ۔ ان پوسٹوں پر تعینات ہونے والے افسران کے لئے کوئی دفتر ہے نہ عملہ تعینات ہوسکا جبکہ بیوروکریسی نے اپنے تین افسران کو ان پوسٹوں پر اکاموڈیٹ کرلیا جو دیگر سہولیات ’’انجوائے ‘‘ کررہے ہیں۔جولائی میں کمشنر لاہور ڈاکٹر مجتبی پراچہ کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری سروسزاکانومی تعینات کیا گیالیکن جاب ڈسکرپشن کا فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ پوسٹ چھوڑ کرچلے گئے ،انہیں وفاقی حکومت نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں بطور نمائندہ تعینات کردیا ۔ گریڈ 20کی افسر سمیرا صمد کو اگست کے پہلے ہفتے میں گریڈ 21کی نئی سیٹ پیدا کرکے ایڈیشنل چیف سیکرٹری زراعت اینڈ رورل اکانومی لگایا گیا، ان کے پاس دفتر ہے نہ عملہ لیکن وہ ایک ماہ سے سرکار ی وسائل استعمال کررہی ہیں۔ ڈاکٹر راحیل صدیقی گریڈ 21کے بیوورکریٹ کو تین اکتوبر کو سیکرٹری تعلیم کے عہدے سے ہٹا کر ایڈیشنل چیف سیکرٹری اربنائزیشن اینڈ انفارسٹرکچر ڈویلپمنٹ لگایا گیا ، یہ پوسٹ بھی نئی پیدا کی گئی۔ دیگر تین پوسٹیں بھی جلد پیدا کرکے اعلی عہدوں پر تعینات بیوروکریسی اپنے دوست افسروں کو تعینات کرانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ پنجاب حکومت کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا اگر حکومت چھ پوسٹیں گریڈ 21میں یکدم پیدا کی جاتیں تو پولیس اور کئی دیگر افسران کااعتراض آنا تھا بلکہ خدشہ تھا کہ صوبے کی سیاسی قیادت انکار نہ کردیتی لہذا ایک ایک پوسٹ نئی بنا کر من پسند افسران کو اکاموڈیٹ کیا جارہا ہے ۔ذرائع کے مطابق پوسٹیں پیدا کرنے کے پیچھے بیوروکریسی کی اپنے افسران کو صوبائی انتطامیہ میں کھپانا کی پالیسی کارفرما ہے کیونکہ یہ افسر صوبے سے باہر تعینات ہونا پسند نہیں کرتے ، نئی پوسٹوں سے خزانہ پرکروڑوں کا سالانہ اضافی بوجھ ڈالا جارہا ہے ۔