2011کے شروع میں عرب ممالک میں جو ’’عرب بہار‘‘آئی، وہ مصر میں بھی پہنچااور حسنی مبارک کی آمریت سے تنگ آکر، مصری عوام "تحریر اسکوائر’’ پر جمع ہوگئے اور 30/سال تک ظالمانہ اور جابرانہ طور پرمصر کے سیاہ و سفید کا مالک رہنے والا ڈکٹیٹر نے، حکومت کی باگ ڈور فوجی جنرل محمد حسین طنطاوی کے حوالے کرکے، اپنے استعفیٰ کا اعلان کروا دیا اور خود حکومت سے الگ تھلگ ہوگیا؛ کیوں کہ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ انقلاب کے بعد ، تقریبا ڈیڑھ سال تک جنرل محمد حسین طنطاوی ملک کے قائد کی حیثیت سے رہے۔ پھر انتخاب کا وقت آیا اور انتخاب میں "دی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی’’کے امیدوار، حافظ ڈاکٹر محمد مرسی نے اکاون فی صد ووٹ حاصل کرکے، حسنی مبارک کے زیر اقتدار رہے وزیرِاعظم، احمدمحمد شفیق کو شکشت دے کر جیت حاصل کی۔ پھرڈاکٹر محمد مرسی 30/جون 2012 کو حلف برداری کی بعد ، مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر بن گئے۔ محمد مرسی نے صدر منتخب ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد، فوجی جنرل محمد حسین طنطاوی کی جگہ عبدالفتاح السیسی کو فوج کا جنرل اور وزیر دفاع بنا یا۔ عوامی ریفرنڈم کے ذریعہ، عوام کی خواہش کے مطابق، عوام کو پہلا جمہوری دستور دیا۔لیکن ڈاکٹر مرسی یہ کی کوشش، کچھ مفاد پرست لوگوں کو نہیں بھائی اوروہ دشمنوں کا آلہ کار بن کر ، ڈاکٹر محمد مرسی کے خلاف، ایک "تمرّد’’(Rebel) نامی تنظیم کے بینر تلے، 30/جون 2013 کو میدان میں آگئے اورعلم بغاوت بلند کردیا۔ میدان میں آنے والوں میں اکثر دوسرے مذاہب اور کچھ ملحد قسم کے لوگ تھے۔مرسی مخالف یہ مظاہرہ، محمد البرادعی کی نگرانی میں ، چند دنوں تک چلتا رہا۔ ڈاکٹر محمد مرسی کے بنائے ہوئے اس وقت کے وزیرِ دفاع اور فوجی جنرل عبد الفتاح السیسی کو ایک موقع ہاتھ لگا اور اس نے ایک جمہوری طور پر منتخب صدر کو 48/ گھنٹے میں ان مظاہرین سے صلح وصفائی کرنے کا حکم جاری کیا اور نہ کرنے کی صورت میں معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی دھمکی دیدی۔ پھر 48/ گھنٹے بعد فوجی جنرل نے ،3/جولائی 2013 کو ڈاکٹر محمد مرسی کو گرفتار کرکے کسی نا معلوم جگہ پر قید کردیا اور سابق دستور کی منسوخی کے ساتھ ساتھ ایک کٹھ پتلی ،عبوری حکومت کا اعلان کردیا۔ ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت کے سقوط کے بعد، پورا مصر سراپا احتجاج بن گیا۔ قاہرہ ، اسکندریہ اور دوسرے بڑے شہروں کی شاہراہیں اور میدان کو "الاخوان المسلمون’’ کے ممبران اور دوسرے عوام نے پر امن مظاہرین کی شکل میں بھر دیا ہے اور اپنے مطالبات کو منوانے کی کوشش میں لگ گئے۔ ان مظاہرین کا سب سے بڑا مجمع قاہرہ کے "میدان رابعہ العدویہ’’ میں تھا۔ سب کے سب مظاہرین عبد الفتاح السیسی کو غدار اور خائن سے تعبیر کر رہے تھے۔ ان پر امن مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ ملک میں فوج کے زیر اثر بنائی گئی غیر دستوری حکومت کو فورا ختم کرکے، ڈاکٹر محمد مرسی کو ان کے عہدے پر واپس لاجائے؛ کیوں کہ وہ عوام کے منتخب صدر ہیں اور عوام نے ان کو ایک معینہ مدت تک کے لیے ملک پر حکومت کرنے کو مینڈیٹ(Mandate) دیا ہے۔ فوج کے ذریعے اس حکومت میں کسی طرح کی مداخلت خیانت اور غداری کے مترادف ہے۔ وہ پر امن مظاہرین جو ملک کے طول وعرض میں اور خاص طور پر میدان "رابعہ العدویہ’’ میں ڈاکٹر محمد مرسی کی موافقت اور فوجی جنرل کی مخالفت میں، کیمپ لگا کر مظاہرہ کر رہے تھے اور اپنے گھر واپس جانے کو تیار نہیں تھے، پہلے ان کو زبردستی ان کے گھر بھیجنے کی کوشش کی گئی۔ جب وہ اس میں کام یاب نہیں ہوئے؛ توانھیں ڈرانا دھمکانا شروع کیا اور ان کو دہشت گرد اور ملک مخالف عناصر سے تعبیر کیا جا نے لگا۔ جب کسی طرح کامیابی نہیں ملی؛ تو پھر 14/اگست 2013 کا وہ سیاہ دن بھی آیا، جس دن سیسی کی فوج نے ان پر امن مظاہرین پر گولی چلائی، بلڈوزر چڑھائے اور ائر فورس نے فضائی حملے شروع کردیے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں امن پسند مظاہرین کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔الاخوان المسلمون کے دوسرے اہم اراکین کے ساتھ ساتھ، ڈاکٹر محمد مرسی کے خلاف بھی مقدمہ شروع ہوا۔ مقدمہ کیا تھا؛ بل کہ ایک منصوبہ بند طریقے سے اراکین اخوان اور ڈاکٹر محمد مرسی کو پھنسانے اور مجرم ثابت کرنے کا ڈرامہ تھا، جو قاہرہ کی عدالت میں،اسٹیج کیا گیا۔ ڈاکٹر محمد مرسی پر بہت سے سنگین الزامات لگائے گئے۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اخوانیوں کو قتل وغارت گری پر اکسایا، دہشت گرد تنظیموں کو تعادن فراہم کیا، ملک کے خلاف جاسوسی کی اور اپنے ملک کے دفاعی راز کو افشا کیا۔ سب کے سب الزامات عدالت میں ثابت بھی ہوگئے اور ایک حافظ قرآن، اعلی تعلیم یافتہ، ایک یونیورسٹی کا سابق پروفیسر، عوام کا منتخب صدر، عدالت میں آکر جاسوس، غدار، دہشت گردوں کا معاون اور نہ جانے کیا کیا ثابت ہوگیا۔یہ مقدمے کا ڈرامہ تقریبا چھ سالوں سے چل رہا تھا۔ اس طویل دورانیہ میں ڈاکٹر محمد مرسی کو قید تنہائی میں رکھا گیا۔ ان کو جسمانی وذہنی طور پر ٹارچر کیا گیا۔ اس طویل مدت میں، انھیں اہل خانہ سے صرف تین بار ملنے دیا گیا۔ابھی 17/جون 2019 کو، وہ "فلسطین کی سیاسی جماعت حماس کے ساتھ جاسوسی’’ کے حوالے سے ایک مقدمہ میں پیشی کے لیے عدالت میں حاضر تھے۔اس طویل چھ سالہ مدت میں، جو بات سب سے اہم رہی وہ یہ تھی کہ ہر طرح کی پریشانی جھیلنے کے باوجود بھی بطل جلیل ڈاکٹر محمد مرسی اپنے سیاہ رو دشمنوں سے ڈرا نہیں، ان بد طینتوں کے سامنے زیر نہیں ہوا اور ان ناپاکوں سے کسی طرح کا کوئی سودا نہیں کیا؛ بل کہ آخری دم تک اپنے موقف پر قائم رہ کر، ان بدبختوں کو بتا دیا کہ وہ حق وانصاف کی لڑائی آخری دم تک لڑتے رہیں گے۔ مقدمہ کی کاروائی شروع ہوئی اور انھوں نے ایک پنجرے میں قید، تقریبا پانچ منٹ تک عدالت سے خطاب کیا اور پھر وہ بے ہوش ہوکر گرگئے اور ان کی موت ہوگئی۔ وہ اس دنیوی عدالت سے اخروی عدالت میں پہنچ گئے اور ان کے دشمنوں کے دل ٹھنڈے ہوگئے۔ وہ جس طرح مظلوم ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں کہ امید ہے کہ وہ آخرت کی عدالت میں سرخرو رہیں گے اور ان کے دشمن ذلیل وخوار ہوں گے۔ اللہ تعالی مرحوم محمد مرسی کی مغفرت فرمائے! ( بشکریہ روزنامہ امن بھارت)