جنگ عظیم اوّل و دوم کی تباہ کاریوں کی کوکھ سے جنم لینے والی دنیا میں جہاں فاتح اتحادی قوتوں نے پوری دنیا پر ایسا ایک خاص مالیاتی نظام زبردستی ٹھونسا، جو مصنوعی کاغذی کرنسی، سود، بینکاری اور دیگر خصوصیات رکھتا ہے، وہیں اس مالیاتی نظام کے تحفظ کیلئے ایک نئے سیاسی جمہوری ، سیکولر، لبرل معاشرے کو بھی انسانی تہذیب و تمدن کا معیار قرار دے دیا گیا ہے۔ کہا گیا کہ یہ ایک ایسا سیاسی نظام ہے جو جمہوریت اور انسانی حقوق کی پاسداری کرتا ہو اور سب سے اہم یہ کہ اس نظام میں عورت کے حقوق کا تحفظ صرف ایک مخلوط معاشرے میں ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے انسانوں کے حقوق کی ایک فہرست مرتب کی گئی، جیسے زندگی کا حق، صحت کا حق، نام و قومیت کا حق، تعلیم کا حق، مکان کا حق وغیرہ وغیرہ اور پھر ان تمام حقوق کو مرد و عورت دونوں کیلئے برابر قرار دیا گیا جو بظاہر بہت اہم ہے۔ دنیا کا کوئی معاشرہ جو اعلیٰ اخلاقی و مذہنی اقدار پر قائم ہے، وہ مرد و عورت دونوں کے برابر انسانی حقوق کا شروع دن سے قائل ہے۔ لیکن اصل بحث اس تصور کے عملدرآمد سے شروع ہوئی اور یہ بحث آج کے عالمی تنازعات کی سب سے بڑی بحث ہے۔ آج یہ تصور ناقابل تردید ہے کہ دنیا اسوقت تک خواتین کے حقوق کی پاسداری تسلیم نہیں کرتی، جب تک وہ ان کے معیارات کے مطابق ایک مخلوط معاشرے میںپورے نہ کیے جائیں۔ یہ ہے وہ حقوق ناپنے کا پیمانہ جس کا بہانا بنا کر آج کل ملکوں کا تجارتی، معاشی اور سیاسی بائیکاٹ کیا جاتا ہے بلکہ ان پر افواج کے ساتھ چڑھ دوڑا جاتا ہے۔ ابھی گیارہ ستمبر نہیں ہوا تھا ،اور افغانستان پر عمر ثالث ملا محمد عمرؒ کی مستحکم حکومت قائم تھی، جب امریکی وفد کی سربراہ رابن رافیل تعلقات کو آگے بڑھانے اور اسلامی امارات کو تسلیم کرنے کیلئے مذاکرات کے لیے آئی تو اپنے ساتھ مطالبات کی طویل فہرست لے کر آئی جس میں سب سے اہم ’’حقوقِ نسواں‘‘ تھے۔ یہ صرف ایک فہرست نہیں تھی بلکہ اس کیلئے باقاعدہ راہ ہموار کی گئی تھی۔گزشتہ دو سالوں سے پورے عالمی میڈیا پر ایک وسیع پراپیگنڈہ کیا گیا تھا کہ طالبان حکومت خواتین کو حقوق نہیں دیتی اور دنیا بھر میں طالبان کو استحصال کی سب سے بڑی علامت بنا کر پیش کیا گیا تھا۔ امریکی حکام یوں تو اپنے معاشی مفادات کی تکمیل کیلئے مذاکرات کرتے رہے، جن میں ’’یونی کول‘‘کمپنی کیلئے پائب لائن کامعاہدہ بھی شامل تھا، لیکن مسلسل ناکامی کی صورت میںانہوں نے طالبان کیلئے مسلسل بدنامی کا ایک راستہ منتخب کیاکہ دنیا میں ایساتاثر قائم کیا جائے جیسے طالبان عورتوں کو حقوق نہیں دیتے۔ ایسی صورت حال میںہی گیارہ ستمبر آگیا۔ دہشت گردی کا الزام دے کر افغانستان پر حملہ کر دیا گیا۔ تمام عالمی طاقتیں اس پر چڑھ دوڑیں، وہاں زبردستی ایک جمہوری سیاسی نظام ، آئین و انتخابات کے ذریعے نافذ کیا گیا اور بے سرو سامان افغانستان کے معاشی ڈھانچے کو مضبوطی سے عالمی مالیاتی گرفت میں دے دیا گیا۔ لیکن ان بیس سالوں میں سب سے زیادہ کوشش و تگ و دو ایک ایسے مخلوط معاشرے کے قیام کیلئے کی گئی، جو افغانستان کی طرزِ معاشرت سے الگ اور اپنی تمام تر خصوصیات کے اعتبار سے مغربی ہو۔ کابل، قندھار، جلال آباد، ہرات اور دیگر چند شہروں کے مرکزی علاقوں کو مکمل طور پر ایسے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی جہاں امریکی اور یورپی افراد اجنبیت محسوس نہ کریں اور مقامی افغان عوام کوبھی ایسا کچھ زیادہ برا نہ لگے۔ ایسا کرنے کیلئے مغرب نے ثقافتی تبدیلی کی ایک تکنیک ایجاد کر رکھی ہے۔ اس تکنیک کے تحت، قدیم لباس، روایتی موسیقی، ڈانس اور ثقافتی کھانے اور دیگر خصوصیات کوجدید مغربی طرزِ معاشرت میں ملا کر "Blend" کرکے ایک مخلوط معاشرہ تخلیق کیا جاتاہے۔جس میں ڈانس تو مخلوط ہوتا ہے لیکن دھن افغانی بج رہی ہوتی ہے۔ مغرب نے اسی مخلوط معاشرے کو دراصل خواتین کے حقوق کا سب سے بڑا پیمانہ بنا رکھا ہے۔ جبکہ اس کے بالکل برعکس عورت و مرد کی صدیوں پرانی معاشرتی تربیت نے اسے ایک ایسی شرم و حیاء کی بنیادی دولت عطا کی ہے کہ وہ اپنے حقوق تو چاہتی ہے لیکن اس حیا کی دولت کو قربان نہیں کرنا چاہتی۔ شرم و حیا اور مردو عورت کی علیحدہ علیحدہ قلمرو (Domains) انسانی معاشرے کا صدیوں پرانا بنیادی ڈھانچہ ہے جس پر تہذیب کی ساری عمارت کھڑی ہے۔ جدید ترین معاشرے میں جہاں اختلاط اپنے عروج پر ہوتا ہے، وہاں بھی ایک عورت اپنی ذاتی زندگی میں خلوت، تنہائی اور علیحدگی ہی چاہتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سو سالہ حقوق نسواں کی زوردار تحریک دنیا بھر میں خواتین کے پبلک ٹائلٹ ہی مردوں کے ساتھ مخلوط بنا لیتی۔ اپنی اپنی جسمانی ساخت، صلاحیت اور استعداد کی وجہ سے آج تک کسی بھی کھیل یا مقابلے میں عورت کو مردوں کے شانہ بشانہ لاکر نہیں کھڑا کیا گیا۔ نہ صرف عورتوں کے تیراکی کے مقابلے علیحدہ ہیں ،بلکہ ہر کھیل میں عورتوں کی ٹیمیں علیحدہ ہوتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے اور وہ بہت بڑا فرق ہے کہ عورتوں کے ان کھیل تماشوں اور عالمی مقابلوں کو پوری دنیاکے مردوں کو باالتزام ضرور دکھایا جاتا ہے۔ لیکن آج اس ’’میڈیائی خواہش‘‘ کو عورتوں کے حقوق کی فہرست میں شامل کرلیا گیاہے۔ یہ سب کچھ اس دن سے شروع ہوا ہے، جب عالمی مالیاتی، سودی کارپوریٹ نظام نے اپنی بے رحم ترقی کیلئے پہلے چھوٹے چھوٹے بچوں کو کارخانوں کی راہ دکھائی اور پھر عورتوں کو بھی عالمی ’’افرادی قوت‘‘میں شامل کرنے کیلئے اسے انکی اہم ترین کنبے کی ذمہ داریوں سے علیحدہ کردیا، جو فطرت نے انہیں عطا کر رکھی ہیں، جن میں بچے پالنا، ان کو تربیت دینا، گھر کو بوڑھوں جوانوں اور بچوں کیلئے محبت کا گہوارہ بنانا۔ یہ تمام خصوصیات فطرت نے انسانوں میں عورت ہی نہیں بلکہ ہر حیوان، چرند پرندکی مادہ کو عطا کی ہیں۔ چونکہ جدید معاشرت کی مرکز نگاہ اور تہذیبی کشش کو عورت کے گرد گھما دیا گیا ہے، اس لیے سب سے بڑا معاشرتی نقصان یہ ہوا کہ وہ اب اس چکا چوند سے رضاکارانہ طور پر اپنی جبلّت سے مجبور ہوکر خاندان، گھر اور پرورش انسان کے عظیم فریضے کی طرف لوٹ جانے یا واپسی کا سفر اختیا رکرنے پر قادر نہیں رہی۔ اسے روکنے کیلئے خوب بندوبست کیا گیا ہے کیونکہ دنیا اس کے تعلیم کے حق کی تکمیل کو اسوقت تک نہیں مانتی ہے جب تک اسے پہلی کلاس سے لے کر پی ایچ ڈی تک مخلوط اداروں میں تعلیم نہ دی جائے۔ ہسپتالوں میں خواہ عورتیں اپنی فطری حیاکی وجہ سے مردوں سے علاج نہ کروائیں مگر صحت کی سہولت میں عورت اور مرد شانہ بشانہ نظر آنے چاہیں۔ طالبان نے گزشتہ دور میں بھی یہی دلائل دیئے تھے کہ ہم اپنی خواتین کو اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے ہیں لیکن مخلوط اداروں میں نہیں۔ ہم انہیں صحت، کھیل، ہنرمندی غرض ہر وہ بنیادی حق مہیا کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کیلئے ان کے ’’میدان کار‘‘ (Domains) علیحدہ ہو۔ یہ انسانی نفسیات کی ایک بنیادی گرہ ہے کہ کوئی بھی عورت اپنی صلاحیتوں کا کھل کر استعمال اسی وقت کرتی ہے جب وہ خود کو چاروں طرف سے اٹھنے والی مردوں کی جنس زدہ نظروں سے محفوظ پاتی ہے۔ خرابی یہ ہے کہ جدید تہذیب میں میڈیا کی چکا چوندکے ذریعے انسانوں کی ایک کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھا یا ہے اور وہ ہے چاہے جانے، دیکھے جانے اور مقبول ہونے کی کمزوری، اور خصوصاً جنس مخالف کی نظروں میں۔ 1920ء کے جس دن دنیا بھر کے اشتہارات میں عورت سگریٹ ہاتھ میں پکڑے داخل ہوئی تھی، اس دن سے لے کر آج تک اسے کوئی اس مرکزی سٹیج سے نیچے نہیں اتار سکا۔ عورت اسوقت تک کامیاب دکھائی نہیں دے سکتی جب تک دنیا بھر کے مردوں کے سامنے نظر نہ آرہی ہو اوروہ عورت فخر سے یہ کہہ سکے، لاؤ کوئی شعبہ جس میں عورت مرد کا مقابلہ نہیں کر سکتی یا مرد سے بہتر نہیں ہے۔ایسا دنیا کے ایک عام معاشرے میں ممکن نہیں۔ ایسا کرنے کیلئے ایک مصنوعی مخلوط معاشرہ قائم کرنا بہت ضروری ہے۔(ختم شد)