دین ِ اسلام میں مسجد کوہمیشہ معاشرتی طور پر مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ مسجد ایک کمیونٹی سنٹر کے طور پر کام کیا کرتی تھی جہاں عبادت بھی ہوتی تھیں اور معمولات ِ زندگی بھی زیر ِ بحث آتے تھے۔ایسا سنٹر جہاں مسائل پربھی بات ہوتی ہے اور مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ مسجد میں عبادت اور اس کے ثواب کے متعلق علماء کرام یقینی طور پرراقم الحروف سے کہیں بہتر جانتے ہیں مگر آج کے کالم کا موضوع مسجد کے اس معاشرتی نظام پر بات کرنا مقصود ہے، جو اِس وقت دنیا کے کچھ ممالک میں رائج ہے۔ مسجد کا ایسا کردار جسے اپنا کر ہم نہ صرف دین بلکہ دنیا میں بھلائی اور بہترین زندگی گزار سکتے ہیں۔ہمارے دوست مفتی صاحب قریباََ چالیس سعودی عرب میں گزارنے کے بعد پاکستان نشین ہوچکے ہیں۔ جب بھی گفت گو ہوتی ہے ہمیشہ نئی اْمیدوں کے در وا کرتے ہیں۔ گزشتہ روز فرمانے لگے کہ سعودی عرب میں آج بھی مسجد کو دین اور دنیاوی لحاظ سے معاشرتی سدھار کے لئے عملی طور پر مرکز مانا جاتا ہے۔ مسجد کے امام کو مذہبی اور معاشرتی حوالے سے اہم کردار سونپا گیا ہے۔جس محلے میں بیٹی جوان ہوتی ہے تو اس کے والدین محلے کی مسجد کے امام کو اطلاع دے دیتے ہیں۔ بالکل اِسی طرح لڑکے کے والدین نے بھی اپنے جوان لڑکے کی شادی کے لئے مناسب رشتہ تلاش کرنے کے حوالے سے امام صاحب کو بتا یا ہوا ہوتا ہے۔ یوں امامِ مسجدمناسب رشتوں میں پْل کا کردار ادا کرتے ہیں۔سعودی عرب میں شادی کو بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے اور اِس مقصد کے لئے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود اور موجودہ وزیراعظم اور ولی عہد سعودی عرب شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز السعود نے الگ سے ایک وزارت قائم کررکھی ہے، جو سعودی عرب میں شہریوں کی شادیوں کے حوالے سے تعاون کرتی ہے۔ سعودی عرب میں شادی کا خرچہ، گھر، گاڑی اور دیگر اخراجات کی ذمہ داری کلی طور پر لڑکے یا لڑکے والوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر کوئی سعودی شہری شادی کے اخراجات ادا کرنے سے قاصر ہو تو وہ متعلقہ وزارت کو چٹھی لکھتا ہے کہ وہ شادی کرنے کا خواہش مند ہے مگر شادی بیاہ پر اْٹھنے والے اخراجات ادا کرنے سے قاصر ہے۔ چھٹی وصول ہونے کے بعد متعلقہ وزارت کا عملہ خواہشمند فرد کے بتلائے گئے پتہ پر رابطہ کرتا ہے۔ سب سے پہلے اْس چٹھی کی ایک نقل اْس محلے کی مسجد کے امام صاحب کو بھجوائی جاتی ہے تاکہ وہ تصدیق کرسکیں کہ متعلقہ خواہش مند فرد کے حالات و واقعات ویسے ہی ہیں جیسے درخواست میں بتلائے گئے ہوتے ہیں۔ اسی طرح دو سے تین ایام کے اندر ضروری تحقیقات مکمل کر لی جاتی ہیں اور وزارت مناسب جانچ پڑتال کے بعد شادی کے اخراجات کے لئے معقول رقم خواہش مند فرد کو فراہم کردیتی ہے۔ اِسی طرح اگر کوئی سعودی شہری دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کرنے کا خواہش مند ہو مگر اخراجات ادا کرنے سے قاصر ہو اِس مقصد کے لئے بھی متعلقہ وزارت امداد فراہم کرتی ہے۔ اِسی طرح جب کسی ملک میں جنگ چھڑ جاتی ہے اور وہاں کے عوام مہاجرین کی صورت میں سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں تو سعودی حکومت اْنہیں اپنی مساجد کے معاشرتی نظام کی وجہ سے خوش آمدید کہتی ہے۔ حال ہی میں شام، لبنان اور یمن سے کثیر تعداد نے سعودی عرب کا رخ کیا تو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اْنہیں دونوں باہیں کھول کر خوش آمدید کہا۔ سعودی عرب میں جب دیگر ممالک کے مہاجرین سرزمین ِ عرب پہ قدم رکھتے ہیں تو اْنہیں بھی مساجد کے امام اور خطیب افراد کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ خطیب اور امام اِن مہاجر افراد کے متعلق باقائدہ سعودی شہریوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ اِن مہاجرین کی دیکھ بھال کریں، اْن کی جوان لڑکیوں سے شادیاں کریں اور لڑکوں سے اپنی لڑکیوں کی شادیاں کرائیں۔ اْن کی معاشرتی اور معاشی امداد کریں۔ دوسر ے الفاظ میں آج بھی سعودی عرب میں چودہ سو سال قبل کا نظامِ مصطفیؐ پوری آب و تاب کے ساتھ چل رہا ہے جب مکہ کے مہاجرین کی انثار نے دل کھول کر امداد کی۔ سعودی حکومت نے مسجد کو زبردست معاشرتی مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے۔ سعودی عرب کی مسجد کے امام کی باقاعدہ تنخواہ مقرر کی گئی ہے اور دیگر سہولیات بھی وزارت ِ اوقاف فراہم کرتی ہے۔ وہاں امام مسجد کا کام محض نماز پڑھانا نہیں ہے بلکہ سعودی عرب میں ایک امام مسجد مذہبی اور معاشرتی فرائض زبردست انداز میں سرانجام دے رہا ہے۔چاہے وہاں کسی فرد نے ذاتی حیثیت میں مسجد تعمیر کی ہوتی ہے پھر بھی اْس مسجد میں تعینات امام کی تنخواہ اور دیگر سہولیات وزارت ِ اوقاف فراہم کرتی ہے۔ یقینی سی بات ہے جب ایک امام یا خطیب کو وزارت ِ اوقات تعینات کرتی ہے اور تمام اخراجات خود اْٹھاتی ہے تو حکومت کے اصول و ضوابط بھی اْسے ماننے پڑتے ہیں جو بالکل عقلی بات ہے۔ شاید اِس سے کچھ ملتا جلتا نظام ترکی میں بھی رائج ہے جہاں مساجد میں تعینات امام اور خطیب کو حکومت تنخواہ فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں انفرادی طور پر کچھ سرکاری و غیر سرکاری حضرات مساجد کی کفالت کررہے ہیں اور کچھ سرکاری افراد نے مساجد کو معاشرتی فلاح اور سْدھار کے لئے بھی استعمال کیا ہے۔ مثلاََ کچھ عرصہ قبل موجودہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی اینٹی کرپشن گلگت بلتستان) کیپٹن لیاقت علی ملک جس ضلع میں بطور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر تعینات رہے انہوں نے کھلی کچہریوں کے لئے مساجد کا انتخاب کیا۔ اِس عمل کے کئی فوائد ملے۔کھلی کچہری پہ اْٹھنے والا خرچہ صفر ہوگیا۔ مسجد کے اندر دونوں پارٹیوں میں جھوٹ بولنے کی عادت کافی حد تک کم ہوگئی۔ بہت سارے مسائل وہیں مسجد میں ہی حل ہوجایاکرتے۔ مسجد میں اکٹھے ہونے والے افراد بشمول پولیس افسران و اہلکاران باجماعت نماز بھی ادا کرتے جس سے بھائی چارے کو فروغ ملتا۔ ساتھ ہی مسجد کے اندر اور باہر جمع ہونے والے افراد میں پولیس افسران سے ڈرنے کی بجائے انسیت کا جذبہ جاگنے لگا۔وہ اْنہیں دل سے سلیوٹ کرنے لگے۔ کھلی کچہری کے موقع پر جمع ہونے والے بچوں میں کیپٹن لیاقت علی ملک کاپیاں اور پنسل تقسیم کیا کرتے۔یہ ایسے اقدامات تھے جنہیں بڑے پیمانے پر معاشرتی حلقوں خصوصاََ میڈیا میں سراہا گیا۔ کیونکہ یہ ایک ایسا عمل تھا جس نے ہماری مسجد کو دوبارہ معاشرتی طور پر مرکزیت دینا شروع کردی اور ہماری مسجد کمیونٹی سنٹر بننے لگی۔ یقین جانئے یہ سب سے بہترین اقدام ہوگا کہ ہم اپنی مساجد کو دوبارہ آباد کریں اور اْنہیں محض عبادت گاہوں کے طور پر استعمال کرنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ اْنہیں معاشرتی فلاحی سنٹر بنائیں اور ہمارے امام اور خطیب محض عبادات کا فریضہ سرانجام دینے تک محدود نہ رہیں بلکہ معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود اور خوشحالی کے لئے بھی اپنا کلیدی کردا ر ادا کریں۔ یہ ایک ایسا زبردست مذہبی و معاشرتی نظام بن سکتا ہے کہ ہم دوبارہ طاقتور انداز میں اْ مت ِ مسلمہ بہ مثل ’یک جسم یک جان‘ کی صورت میں اْبھر کر سامنے آسکتے ہیں۔