گزشتہ روز جھوک سرائیکی ملتان کی طرف سے معروف ادیب ، دانشورو متعلم پروفیسر دلشاد کلانچوی کی 23 ویں برسی منائی گئی اور مرحوم کی علمی و ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ پروفیسر دلشاد کلانچوی کو قریباً 70 کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اعزاز اور شرف بھی حاصل ہے کہ انہوںنے قرآن مجید کا سرائیکی میں ترجمہ کیا ۔ اس کے ساتھ وہ پہلے آدمی ہیں جو سرائیکی شعبہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے پہلے استاد ہیں اور یہ بھی ان کا کریڈٹ ہے کہ 1989ء میں شروع ہونے والے سرائیکی شعبہ میں پہلے دن سے لیکر اپنی وفات تک پڑھاتے رہے اور یونیورسٹی سے کوئی معاوضہ بھی نہ لیا۔ پروفیسر دلشاد کلانچوی کا تعلق وادی سون کے گاؤں سبھرال سے تھا ، وہ 1915ء میں پیدا ہوئے ، والد کا نام غلام محمد تھا ، پروفیسر دلشاد کلانچوی کے دادا محمد احمد اعوان وادی سون سکیسر سے تلاش معاش کے سلسلے میں ریاست بہاولپور کے قصبہ کلانچ والا آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ دلشاد کلانچوی کے بیٹی مسرت کلانچوی ، اختر صباح اور بیٹے جمشید کلانچوی بہت بڑے رائٹر ہیں ۔ پروفیسر مسرت کلانچوی استاد ہونے کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی کی ڈرامہ رائٹر بھی ہیں اور ان کا نام پوری دنیا میں احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔اس گھرانے کے اکثر لوگ اہل قلم ہیں ، یہ تمام فیض دلشاد کلانچوی صاحب کا ہے کہ انہوں نے گھر میں بڑی لائبریری قائم کی اور گھر کے ماحول کو ادبی بنایا ۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ دلشاد کلانچوی کی طرح عالمی شہرت یافتہ ادیب احمد ندیم قاسمی کا تعلق بھی وادی سون سکیسر سے ہے اور کلانچوی صاحب کی طرح وہ بھی اعوان تھے ۔ وہ بھی کلانچوی صاحب کی طرح ایس ای کالج بہاولپور میں پڑھتے رہے ۔ جس طرح احمد ندیم قاسمی کا اردو میں ایک نام ہے ، اسی طرح دلشاد کلانچوی کا بھی سرائیکی میں بہت بڑا نام اور مقام ہے۔ کلانچوی صاحب سے قریبی نیاز مندی تھی اور ان سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں ۔ وہ پہلے سرائیکی اخبار جھوک کے مستقل قاری تھے، انہوں نے مجھے ایک مرتبہ کہا کہ آپ کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا کہ آپ نے پہلے سرائیکی اخبار کا اجراء کر کے قوم پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ کچھ حضرات کلانچوی صاحب کے ناقد تھے اور ان کی علمی و ادبی حیثیت ماننے کو تیار نہ تھے مگر جونہی سرائیکی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا تو آج تک ان کی لکھی ہوئی کتابیں ہی کام دے رہی ہیں ۔ سرائیکی تعلیم کے احیاء کے سلسلے میں دلشاد کلانچوی کی بہت خدمات ہیں۔ ایک کہاوت ہے کہ بڑے گھروں میں چھوٹے لوگ اور چھوٹے گھروں میں بڑے لوگ پیدا ہوتے ہیں ، اسی طرح پروفیسر دلشاد کلانچوی ابھی 6 سال کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔ان کی والدہ باہمت خاتون تھیں جنہوں نے دونوں بیٹوں کو ماں کی محبت کے ساتھ باپ کی شفقت بھی دی ، پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد دلشاد کلانچوی کچھ عرصہ گھر پر ہی رہے۔ والدہ نے ان کے تعلیمی ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے 1929ء میںانہیں اپنے کزن مولوی عبدالقادر صدیقی کے پاس بہاولپور بھیج دیا ، جنہوں نے دلشاد کلانچوی کو صادق ڈین ہائی سکول بہاولپور میں داخل کرا دیا ۔ یہاں انہوں نے پہلے سال انگلش جونیئر کی تعلیم حاصل کی اور وہ 1930ء میں شعبہ ثانوی میں آ گئے۔ بڑے بھائی انہیں اخراجات کیلئے رقم روانہ کرتے تھے لیکن صادق اسکول میں داخل ہونے کے ڈیڑھ سال بعد ان کے بڑے بھائی کا انتقال ہو گیا اور گھر سے رقم آنے کا سلسلہ بند ہو گیا ۔ ان حالات میں مجبور ہو کر دلشاد کلانچوی نے سرکاری یتیم خانہ میں داخلہ کیلئے درخواست تھی اور انہیں شیخ غوث محمد ڈپٹی انسپکٹر آف سکول کی سفارش پر کلاس ہفتم کے دوران میں ڈیڑھ سال کیلئے سرکاری یتیم خانہ میں داخل کر لیا گیا۔ 1933ء میں آٹھویں جماعت کے امتحان میں ریاست بہاولپور میں اوّل آئے۔ جس کے سبب یتیم خانہ کے سپرنٹنڈنٹ نے انہیں خصوصی اجازت نامے کے ذریعے بی اے تک یتیم خانہ کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دلا دی ۔ 1935ء میں انہوں نے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا ، اسی سال ایس ای کالج بہاولپور میں داخلہ ہو گئے جہاں 1939ء میں انہوں نے بی اے کا امتحان اعلیٰ نمبروں میں پاس کیا ۔ پھر 1941ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے ایم اے ( معاشیات ) کی ڈگری حاصل کی ۔ بعد میں 1953-54ء میں ایم اے ( اردو ) کی ڈگری بطور پرائیوٹ امیدوار حاصل کی ۔ دلشاد کلانچوی نے ایم اے ( معاشیات ) کے بعد لاہور سے واپس بہاولپور آئے اور 1942ء میں ان کی شادی استاد اور ماموں مولوی عبدالقادر کی بیٹی سے ہو گئی ۔ 24مئی 1942ء میں محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازم ہوئے ۔ یہاں قریباً 1 سال کام کرتے رہے ۔ یکم جون 1943ء کو ایس ای کالج بہاولپور میں لیکچرر مقرر ہوئے ۔ 1954 ء تک وہ ریاست بہاولپور کے ملازم رہے اور جب ون یونٹ بنا تو وہ صوبہ مغربی پاکستان کے ملازم ہوئے ،14 اکتوبر 1955ء میں ترقی پاکر پروفیسر بن گئے ۔معاشیات میں انہوں نے ایم اے کیا تو اس کا حق ادا کرتے ہوئے معاشیات کے طلبہ کی درس ضروریات کے لئے چھ کتب لکھیں ۔ یہ بات بذات خود ایم اے سرائیکی کرنے والے ماسٹر ہولڈر کیلئے درس کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان کا پہلا سرائیکی افسانہ روہی دا خواب ماہنامہ سرائیکی بہاولپور میں شائع ہوا ۔ ان کی کتابوں میں 10 اردو ، 3 انگریزی اور 56 سرائیکی زبان میں ہیں ۔ انہیں سرائیکی زبان سے بہت زیادہ محبت تھی ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے خود کو سرائیکی کیلئے وقف کر دیا ۔ 23 مارچ 1971ء کو انہوں نے بہاولپور میں سرائیکی لائبریری قائم کی جہاں محققین نے بہت فیض پایا ۔ جنوری 1986ء میں سرائیکی زبان و ادب کی ترقی کیلئے ماہنامہ خبر نامہ سرائیکی جاری کیا ۔ان کی کتاب کون فرید فقیر پر اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے 1983ء میں خواجہ فرید ایوارڈ دیا گیا ، سرائیکی زبان تے ادب کو اکادمی ادبیات نے 1988ء میں خواجہ فرید ایوارڈ دیا ۔ بہاولپور دی تاریخ تے ثقافت پر 1989ء میں حکومت پاکستان کے محکمہ اطلاعات نے جام ادراک ایوارڈ دیا ۔ 1998ء میں خواجہ فرید کے صد سالہ جشن کے موقع پر اسلامیہ یونیورسٹی کی جانب سے خواجہ فرید اور ان کے کلام کی تشریح پر خواجہ فرید میڈل بعد از مرگ دیا ۔ دلشاد کلانچوی 16 فروری 1997ء کو بہاولپور میں وفات پا گئے ۔ انہیں بستی کلانچ والا میں ان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔