اشک گردوں صدف میں پالتے ہیں تب سمندر گہر اچھالتے ہیں خود فراموشیاں نہ پوچھ اپنی زندگی کا عذاب ٹالتے ہیں زندگی عذاب نہیں مگر شعور اور احساس بعض اوقات ساتھ چھوڑ جاتا ہے ’’وگرنہ زندگی بہت حسین‘ اس کو دیکھ ہماری آنکھوں سے‘‘۔ زندگی کتنی خوبصورت ہے۔ ’’مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔ باور آیا کہ زندگی کیا ہے‘‘۔ زندگی اور کس کو کہتے ہیں۔ پنچھی اڑتے ہیں آشیانے سے، دل چاہتا ہے کہ زندگی کے یہ رنگ آپ کو دکھاتا جائوں۔ اپنے دوست انجم یوسفی یاد آ گئے۔ ’’مجھ سے پوچھتے کیا ہو زندگی کے بارے میں‘ اجنبی بتائے کیا اجنبی کے بارے میں‘‘۔ بہرحال زندگی زندہ دلی کا نام ہے۔ میں نے زندگی کو تمہید اس لیے کیا کہ ہمارے ایک درویش صفت دوست محمود غزنی اپنی زندگی لوگوں میں مسکراہٹوں اور ہمدردیوں کی صورت بانٹ کر عدم کے سفر پر روانہ ہوئے۔ آپ یقین کیجئے کہ بہ اعتبار زمانہ ان سے کیا لینا دینا۔ برس ہا برس سے ان سے ملاقات موقوف رہی۔ ہم بھی عرصہ ہوا بورے والا نہیں گئے اور وہ فقیر بھی کہاں نکلا ہوگا مگر یہ کیا کہ ان کی رحلت کی خبر دل کو سوگوار کر گئی اور ان کی محبت دل میں عود کر آئی۔ یقین مانیے بالکل مٹا ہوا شخص سب کو خندہ پیشانی سے ملنے والا۔ درویشی اور فقیری اس نے اوڑھی نہیں تھی۔ وہ پیدا ہی ایسے ہوا تھا نہ چالاکی اور نہ دنیا داری۔ اپنی محرومیوں اور نہ رسائی کی کوئی شکایت۔ انسانی اقدار اور روایات کا حامل سخن ور جو شعروں کے چراغ جلا کر تاریخ کے طاق میں رکھتا گیا۔ اپنے معاشرے کا سچا نمائندہ: خموش بیٹھے رہے امن چاہنے والے کسی نے حال بھی پوچھا نہ فاختائوں کا یہی ہوا تو بہت ناں کہ ہار جائو گے مقابلہ تو کرو شہر کے خدائوں کا حق اور سچ کے تمیز کے ساتھ اپنے عہد کا شعور رکھنا خوبی بھی ہے اور عبادت بھی۔ میں نے اس مزاج کا آدمی اسلم کولسری کی صورت میں دیکھا تھا۔ محمود غزنی بھی اسی نوعیت کے تھے کہ ان کے قریب آنے والا عزت پاتا تھا۔ وہ مثبت سوچ کے حامل ایک اوریجنل غزل گو تھے کہ اقبال کے تتبع میں مقصدیت کے قائل تھے وہ کسی کو بھی دکھ درد میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ وہ بگڑتے ہوئے معاشرے پر کڑھتے تھے: ہماری نسل کے تن پر عذاب اتریں گے اگر تلاش نہ رزق حلال ہم نے کیا ایک زمانہ تھا جب میں بھی مشاعروں کا رسیا تھا۔ وہ سنہرا دور تھا کہ احمد ندیم قاسمی‘ منیر نیازی قتیل شفائی‘ شہزاد احمد‘ امجد اسلام امجد اور کیا کیا نام گنوں ہم اکٹھے مشاعروں میں جاتے تھے۔ اس حوالے سے بوریوالہ کا نام بہت اہم ہے۔ آپ لوگوں کو کاٹن فیکٹری کے مشاعرے تو یاد ہوں گے۔ اس کے علاوہ بوریوالا تخلیقی اور ادبی حوالے سے ایک ادبی گہوارہ رہا ہے۔ ادب کی تاریخ میں یہاں کے ادیب شاعر یاد رکھے جائیں گے۔ مثلاً جمیل احمد عدیل جیسے بے پناہ صلاحیتوں والے فکشن رائٹر بھی ہیں۔ اب تو وہ لاہور میں ہیں۔ حنیف صوفی جیسے شاعر جو ہر سال ایک بڑا مشاعرہ کرواتے اور ملک بھر سے شاعر وہاں آتے۔ کلیم شہزاد‘ غفار ‘ اکرم باجوہ اور اسی علاقے سے خادم چشتی جن کی ’’رب راکھا‘‘ شعری پہچان بنی۔ بہرحال ہم شاعر وہاں بوریوالا رات بھی قیام کرتے۔ تب محمود غزنی سے دوستی ہوئی۔ وہ ایک سنجیدہ اور معتبر مقام کے حامل تھے: تو پھر بہشت سے جائے گا اس شجر کی طرف تو آدمی ہے ترا اعتبار تھوڑی ہے آپ ذرا جمیل احمد عدیل کی زبان میں ایک اقتباس دیکھئے۔ ’’وہ شخص ہوائے عناد سے پاکیزہ تھا‘ اگر کسی سے وقتی اختلاف بھی ہوتا تو پورے وقار کے ساتھ‘‘۔ اس نے وہ سکوت اختیار کیا کہ تکلم کو بھی پیار آ جائے۔ اس کو اشرافیہ سے واسطہ تک نہیں تھا۔ وہ ایک حال مست‘ اپنی دنیا میں آسودہ رہنے والا شخص تھا۔ ایک پرائمری سکول میں عمر بھر کی تدریس ان کی زندگی کا حاصل ہے۔ ان کے ہزاروں شاگرد ان کی غیر معمولی تکریم کرتے تھے۔ مجھے مسٹر چپس ناول یاد آ گیا کہ کردار اور عمل ہو تو سکول کا استاد بھی ہیرو ہے۔ آپ کو اللہ نے جہاں اور جو منصب دیا آپ نے اس کے ساتھ انصاف کیا۔ ایسے لوگ ہی مشعل راہ ہیں۔محمود غزنی کا ایک ہی شعری مجموعہ ’’دشت کا تنہا سفر‘‘ 1994ء میں مصنفہء شہود پر آیا اور اسے بہت پذیرائی ملی۔ تاہم وہ آخری دم تک شعر گوئی سے دستبردار نہیں ہوئے۔ یقینا شاعری کی اشاعت میں وسائل یا ان کی احتیاط مانع ہوگی۔ پتہ چلا ہے کہ ان کے فرزند شاہد محمود بھی باذوق ہیں اور والد کی وراثت شعر کو سنبھالیں گے۔ ویسے ہمارے معاشرے میں ایک شاعر کا مفید و کارآمد ہونا معمولی بات نہیں: خبر پھیلی ہے باہر جب سے بارودی کھلونوں کی میرے بچے کوئی بھی چیز گھر لے کر نہیں آئے آپ دیکھیے کہ محمود غزنی اپنے عہد کی چیرہ دستیوں سے باخبر ہیں۔ آپ کو بھی یاد آیا ہو گا کہ امریکہ افغانستان میں کھلونا بم پھینکتا رہا جنہیں بچے بھاگ کر اٹھاتے اور ان کے چیتھڑے اڑ جاتے۔ ہائے ہائے۔ میرے معزز قارئین! میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ جس کا حق ہو وہ اسے دیا جائے۔ یہ بات قدرت دل میں ڈالتی ہے۔ مجھے محمود غزنی سے اپنے ایک ایسے ہی دوست یاد آئے جن کا نام اظہار شاہین تھا۔ وہ بھی ایسے ہی مٹے ہوئے آدمی تھے۔ ان کا ایک فقرہ تو مجھے لڑ گیا کہ اللہ ایسے پیارے اور دیانتدار لوگ بھی ہیں۔ کہنے لگے شاہ صاحب میں نے ایسا وقت بھی دیکھا کہ جب حرام حلال ہو جایا کرتا ہے مگر میں نے رشوت نہیں لی۔ آخری وقت تک ان کا بے حد احترام میرے دل میں رہا۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ محمود غزنی اس قبیل کے آدمی تھے۔ اصل میں ان کی زندگیاں ہی اصل میں راہ کے چراغ ہیں۔ میں تو جانتا ہوں کہ اکثر شاعر گمراہ ہی کرتے ہیں تبھی تو حالی نے کہا تھا گنہگار واں چھوٹ جائینگے سارے۔ جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے۔ جس کے لفظ لفظ میں خیر ہو وہی عہد میں اچھائی پھیلا سکتا ہے۔ آپ ان کا ایک اور شعر دیکھیں: حوصلے پست نہ مقتل میں بھی ہونے دینا شہر کا شہر تجھے دیکھنے آیا ہوا ہے آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمارے دوست محمود غزنی سے رحمت کا معاملہ کرے اور ان کی بخشش فرمائے۔ آمین۔