وزارت داخلہ کے تحفظات کے باوجود وفاقی حکومت نے ملک میں مساوی نظام تعلیم اور دینی مدارس کو ایک ارب 80کروڑ روپے کی لاگت سے قومی دھارے میں شامل کرنے کاپروگرام شروع کر دیا ہے۔ بلاد اسلامیہ میں دینی مدارس کی علمی ‘ تہذیبی اور تمدنی مراکز کی حیثیت ہے ۔ایک زمانے میں ان مدارس میں قرآن و حدیث‘ فقہ اور منطق کے علاوہ فلسفہ ‘ ریاضی‘ طب جغرافیہ اور علم نجوم بھی پڑھائے جاتے تھے اور انہی مدارس کے فیض یافتہ افراد نے ایک زمانے کو دینی اور دنیاوی علوم سے بہرہ ور کیا۔ جدید وقت کے ساتھ ساتھ ان مدارس کے نصاب تعلیم میں بھی جدت آنی چاہیے تھی۔ لیکن مدارس کے ارباب بست و کشاد نے اس جانب توجہ نہ فرمائی‘ جس کے باعث آج مدارس سے آٹھ سے دس برس کا کورس کرنے والا عالم اپنے روزگار کے لئے صرف مسجد کی امامت تک محدود ہوتا ہے۔ دنیاوی علوم سے آگاہی نہ ہونے کے باعث وہ کسی بھی سرکاری محکمے میں ملازمت کا اہل قرار نہیں پاتا ‘جس بنا پر مدارس کے فارغ التحصیل طلبا میں مایوسی کا تاثر سامنے آتا ہے۔ اسی بنا پر ان میں شدت پسندی در آتی ہے‘ اس وقت متعدد مدارس میں سکولز کی تعلیم شروع ہو چکی‘ جہاں سے علماء کرام درس نظامی کے ساتھ ساتھ ایم اے اور ایم فل کی ڈگری لے کر نکل رہے ہیں لیکن اگر حکومتی سرپرستی میں اس کو مزید بہتر کیا جائے تو مدارس کے طلباء کو تمام سرکاری محکموں میں ملازمت مل سکے گی۔ سرکاری محکموں میں خوف خدا رکھنے والے افراد کی آمد سے ہی مسائل بہتر سمت میں چل سکیں گے۔