مسلم لیگ(ن) یقینا نواز شریف کی زیر قیادت سب مسلم لیگیوں کی ملکیت سیاسی جماعت ہے مگر جس طرح اپنے حقیقی بھائی شہباز شریف(صدر) اور راجہ ظفر الحق(چیئرمین) کو چھوڑ کر اپنے انتہائی جذباتی داماد کیپٹن(ر) صفدر اعوان کو مولانا فضل الرحمن سے رابطے کا ’’امین‘‘ بنا دیا ہے بھلا اس کا مطلب و مقصد صرف وزیر اعظم عمران خان کو منصب سے الگ کرنا ہے؟ صرف پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت کا خاتمہ ہے؟ نہیں ہرگز ۔ اگر ہم کیپٹن(ر) صفدر اعوان کی شخصیت کا جائزہ سنجیدگی سے لے لیں تو وہ انتہائی غیر مستحکم سیاسی اور مذہبی رویے کا نام ہے۔ پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر وہ تحریک لبیک کی ہمنوائی کرتے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کو مذہبی شدت پسندی کی طرف موڑ دینے کا عمل کرتے رہے ہیں مگر ان کا یہ سارا عمل اس وقت نمودار نہیں ہوا تھا جب وزیر اعظم نیا آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی رخصتی کے سبب کر رہے تھے۔ میری نظر میں میاں نواز شریف کا سارا زور اب اس بات پر ہے کہ فوجی قیادت کو متنازع بنا دیا جائے۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ میں نے سوچ سمجھ کر یہ بات لکھی ہے کہ کیپٹن(ر) صفدر اعوان کو سامنے لانے اور حسین نواز کو خط لکھ کر مولانا فضل الرحمن کا مددگار بننے کے نواز شریف عمل کا دو ٹوک اصل نشانہ فوج ہے۔نواز شریف کا یہ عمل فوج کو تقسیم اور انتشار سے دوچار کرنے کا ہدف اور مقصد رکھتا ہے۔ کیا مدبر مسلم لیگی نواز شریف کے اس ہدف و مقصد عمل کے ساتھی ہیں۔ ہرگزنہیں۔ شہباز شریف کے حوالے سے میرے مشاہدات و تجربات قارئین کے سامنے موجود ہیں۔ شہباز میں اتنی طاقت ہی نہیں کہ وہ نواز شریف کے مدمقابل کھڑا ہو کر سیاست کر سکے۔ نواز شریف شہباز پر مکمل بالادستی رکھتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ریاستی اداروں سے صلح اور مفاہمت کی عملیت پسندی اپناتے ہیں۔ مگر وہ آخری لمحے صرف نواز شریف کے سپاہی ہی ثابت ہو جاتے ہیں۔ میں نے گزشتہ کالموں میں ن لیگ کے مدبر مسلم لیگیوں کو راستہ دکھلایا تھا کہ وہ ’’پارلیمانی مسلم لیگ‘‘ نام کا اپنا وجود تخلیق کر کے عمران خان کے ساتھی بن جائیں۔ یوں انہیں اقتدار ملے گا ۔ عمران خان کی عددی کمزوری طاقت میں تبدیل ہو جائے گی۔ عمران خان بلیک میل کرنے والے ساتھیوں سے دلیری سے بے نیاز ہو جائیں گے۔ ریاست اور عوام کو مضبوط حکومت کی نعمت ملے گی۔ مودی کے انڈیا کے مدمقابل نئی مضبوط و مستحکم حکومت دلیری اور جرأت سے موقف اپناتی رہے گی۔ مگر ن لیگ میں موجود مدبر مسلم لیگی ڈرتے ہیں۔ شاید وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) نواز شریف کی ذاتی پارٹی ہے۔ لہٰذا ان کے بغاوت کرنے کی سزا نواز شریف مریم نواز کی طرف سے انہیں ملے گی۔ میر نظر میں ہر گز ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ سوچ لیں کہ اگر نواز شریف اور مریم نواز ان سے کہہ دیں کہ وہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیں تو کیا یہ عمل مدبر پارلیمانی مسلم لیگیوں کو قبول ہو گا؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ یوں تو صفحہ سیاست سے ہی یہ سارے ممبران مٹ جائیں گے۔ پہلی کہ عمران کی حکومت ختم کرانے کے نتیجے میں فوراً انتخابات ہونے ہی نہیں ہیں۔ قومی حکومت اگر بن سکتی ہے تب بھی وزیر اعظم عمران خان ہی رہیں گے۔ شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے اور چودھری نثار علی کا وزیر اعلیٰ بننا تو ناممکن ہے۔ ہاں عمران عددی طور پر کمزور ہیں۔ ان کے اقتدار کو صرف اکتوبر‘ نومبر میں کچھ خطرہ ہے۔ مگر پھر بھی عمران خان ہی بطور وزیر اعظم برقرار رہیں گے۔ ایسا کرنے کی فوری ضرورت صدارتی آرڈیننس بھی پوری کر دے گا۔ میں نے صرف امکانات کے حوالے سے صورتحال لکھی ہے یہ سوچنا کہ ایک طرف مولانا کا دھرنا ہو گا۔ عمران خان پریشان لہٰذا ان کے خلاف تحریک اعتماد لا کر اسے بے بس کر کے مستعفی ہونے پر مجبور کیا جائے۔ ناممکن ہے یہ سب پیپلز پارٹی دو عدد وجود رکھتی ہے ایک پی پی پی پارلیمنٹرین اور دوسری پی پی پی پی ‘ شہباز شریف کو پارٹی کا صدر رہنے دیں جس کے چیئرمین راجہ ظفر الحق اور سیکرٹری جنرل احسن اقبال ہیں مگر ایک ’’نئی پارلیمانی مسلم لیگ‘‘ بنا لیں۔ اسے الیکشن کمیشن میں رجسٹر کروا لیں۔ راستہ میں نے تجویز کر دیا ہے جرأت اور دلیری سے اس راستے پر چلنے کا دلیرانہ عمل خود مسلم لیگیوں کو کرنا ہو گا۔ فی الحال ق لیگ میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں۔ نہ ہی عوامی مسلم لیگ میں۔ ویسے بھی شیخ رشید ناقابل اعتبار ہیں۔ رائی کا پہاڑ بنا کر مبالغہ آرائی کرتے ہیں۔ نومبر میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیعی مدت کا نوٹیفکیشن جاری ہونا ہے۔ ممکن ہے کہ آخری عشرے میں یہ نوٹیفکیشن جاری ہو جائے۔نومبر میں مریم نواز بطور سکارپیو شدید غصے اور نفرت کا سراپا ہو گی جواب میں سکارپیو جنرل کیا خاموش رہے گا؟ کیا مارشل لاء لگنا چاہیے؟ ہرگز نہیں۔ مارشل لاء مسائل کا حل نہیں ہے۔ حل صرف یہ ہے کہ عمران ہی وزیر اعظم رہیں۔ ان کی عددی کمزوری خود سنجیدہ مسلم لیگی پوری کر دیں۔ نئی مختصر مگر باصلاحیت افراد پر مبنی کابینہ بنے گی۔ فوج کو سیاسی دبائو سے نجات ملے گی۔ سرحدوں کا دفاع فوج کرے گی کیا مدبر اور سنجیدہ مسلم لیگی ایسا کرسکتے ہیں؟ اقتدار سامنے ہے مگر یہ اقتدار شریف خاندان سے سیاسی نجات کے ذریعے ہی میسر آ سکتا ہے اگر مخلص مسلم لیگی یہ عمل کر لیں تو وہ عوام‘ ریاست ‘ ملک کے بڑے محسن بن جائیں گے۔ نواز شریف و مریم نے انہیں ویسے بھی مستقبل میں ٹکٹیں نہیں دینی۔ پس تحریر: ممکنہ طور پرامر الٰہی کے سبب نومبر‘ دسمبر نظام حکومت تبدیل کرتے مہینے ہو سکتے ہیں واللہ اعلم بالصواب۔