مجید نظامی مرحوم کارزار صحافت کی کامیاب شخصیت تھے،ان کے نکتہ چیں انہیں ’’خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے ...... کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے‘‘کی مجسم تصویر قراردیتے تھے۔ جسٹس (ر)سید غوث علی شاہ ،نور بصیرت کے خالق میاں عبدالرشید کے چھوٹے بھائی میاں عبدالمجید، سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ ،ڈاکٹر رفیق احمد،سابق صدر محمد رفیق تارڑ اور جسٹس(ر) آفتاب فرخ دعویٰ کرتے تھے کہ مجید نظامی صاحب ان کے مہربان دوست ہیں لیکن فریق ثانی نے ان کے اس دعوے کو کبھی اعلانیہ شرف قبولیت نہیں بخشا۔نظامی صاحب کی زندگی پر نظر رکھنے والے ان دعووں کو یک طرفہ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے ساری زندگی تنکا تنکا جوڑ کر ایک خوب صورت آشیانہ تعمیر کیا۔مجید نظامی صاحب کی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے اپنی سخت گیری کو اپنی طاقت بنا لیا اور پھر ایک بڑی میڈیا سلطنت کھڑی کرنے میں کامیاب رہے۔ان کی یہی سخت گیری اور اپنی فکری حدوں میں رہنے کے گر کانتیجہ تھا کہ بھٹو صاحب، جنرل ضیا، جنرل مشرف اور ان کے رفقا ،حتیٰ کہ شریف برادران بھی ان سے احترام کے نام پر ان سے فاصلہ رکھتے تھے۔ ان کی اصول پسندی کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے سیاست کی دلربا شخصیت ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے بڑھا ہوا دوستی کا ہاتھ یہ کہہ کر جھٹک دیا کہ اسلام میں سوشل ازم کا تڑکہ لگا کراجنبی نظام نافذ کرنے والے سے دوستی نہیں ہو سکتی لیکن وہی نظریاتی صحافت کا علم بردار پندرہ سولہ سال بعد ذوالفقار علی بھٹو کے بد عنوانیوں کے الزامات میں گھرے اور اشرافیہ کی شہ پر میاں نواز شریف کے نشتروں کی زد پر کھڑے داماد آصف علی زرداری کو ان کی حوصلہ مندی اور سیاسی جرات کو تسلیم کرتے ہوئے ’’مرد حر‘‘کے خطاب سے نواز دیتا ہے۔اس پر تو نون لیگ کے آنگن میں صف ماتم بچھ گئی۔نواز شریف مجید نظامی صاحب کو اپنا نظریاتی گرو سمجھتے تھے، انہیں بڑی مایوسی ہوئی۔ اپنی سیاست کے عروج کے دور میں میاں نواز شریف کو بھی اپنے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا تھا،ان کی خودفریبی کا یہ عالم تھا کہ وہ سیاست میں اپنا ثانی کسی کو نہیں سمجھتے تھے۔ یوں تووہ بی بی شہید سے میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے کے بعد بھی حزب اختلاف بطور خاص پیپلز پارٹی کے ساتھ مخاصمت سے باز نہ آتے تھے، شاید انہیں اپنے پہلے سیاسی گرو جنرل جیلانی نے پیپلز پارٹی سے عداوت گھٹی میں دے دی تھی کہ مقبول سیاسی جماعت سے کمال درجے کی مخالفت ہی انہیں بڑی سیاسی اڑان کے قابل بنا سکتی تھی ۔الزامات اور مال کمانے کی روش سے قطع نظر آصف علی زرداری نے دس برس جیل میں بیٹھ کر سیاسی رونا دھونا کرنے یا المیہ فلمی گیت گنگنانے کی بجائے کامیاب و کامران حکمرانوں کی آپ بیتیاں پڑھیں اور خود کو مستقبل کے بڑے سیاسی کردار کے لئے تیار کرتے رہے۔ ان دس برسوں میں انہوں نے اتنا مطالعہ کیا کہ ان کی زندگی یکسربدل کر رہ گئی اور وہ جب سلاخوں سے باہر آئے تودس برس بعد ہماری ملاقات ایک مختلف آصف علی زرداری سے ہوئی۔ جس کا اعتراف انہوں نے خود مجھ سے بھی کیاکہ جب میں سجاد میر صاحب اور سالک مجید ان کی رہائی کے بعد بلاول ہائوس میں ان کا پہلا انٹرویو کر رہے تھے۔ آصف علی زررداری کو مجیدنظامی صاحب کی طرف سے اتنا بڑا لقب مل جاناان کی بڑی سیاسی کامیابی تھی جو شریف برادران سے ہضم نہیں ہو پارہی تھی۔آصف علی زرداری جیل یاترا کے بعد سیاسی طور پر کافی گھاگ ہو گئے تھے اور انہوں نے رہائی پاتے ہی مجید نظامی صاحب کو پیغام رساں کے ذریعے خصوصی شکریہ کہلوایاجس کالاہور سے مثبت جواب آیا۔ اس بات کا تو میں بھی گواہ ہوں کہ جب تک مجید نظامی صاحب زندہ رہے میاں نواز شریف دن رات کوششوں میں لگے رہے کہ کسی نہ کسی طرح مجید نظامی صاحب آصف زرداری کوبخشے گئے ’’مرد حر‘‘کے خطاب سے لاتعلقی کا اظہار کردیں۔مجید نظامی صاحب نے میاں نواز شریف کی خواہش اور کوشش کا منہ یہ کہہ کر ہمیشہ کے لئے بند کر دیا کہ ’’بھائی میں نے آصف علی زرداری کو اس کی قید و بند کی صعوبتیں مردانہ وار جھیلنے پر مرد حر قرار دیا تھا نہ کہ اس کی بد عنوانیوں پر،جہاں تک بدعنوانیوں کاتعلق ہے وہ جانیں، احتساب کرنے والے ادارے جانیں اور آپ جانیں، میری نظروں میں وہ مرد حر تھا اور مرد حرہی رہے گا۔‘‘اس بار آصف علی زرداری کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی کہ جب ملک میں مبینہ طور پر ایمپائروں کی من پسند حکومت برسراقتدارآچکی تھی اور ان کے سیاسی حریف میاں صاحب معہ اہل وعیال پہلے ہی جیل میں انتہائی کرب اور اضطراب کی زندگی گزار رہے تھے۔ عمران خان ابھی سیاسی ہنی مون پر ہی تھے کہ پہلے شریف برادران کو جیل ہوئی اور پھر کچھ عرصہ بعد سابق صدر آصف علی زرداری بھی دھر لئے گئے۔ہمارے ایک سیاسی نبض شناس دوست نے ایک باربڑے پتے کی بات کی تھی کہ سیاست دان جب اشرافیہ سے معاملہ فہمی کر کے آتے ہیں تووہ دور ملک اور قوم کے لئے قدرے غنیمت ہوتا ہے اور ملک میں لولی لنگڑی جمہوریت اور اندھا کانا میڈیا چلتا ہی رہتا ہے لیکن جب یہ لوگ من مانیاں کرتے ہیں تو اقتدار سے تو ہاتھ دھونا ہی پڑتے ہیں ،جھونگے میں جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے اور نسلوں کا حساب کتاب بھی دینا پڑجاتا ہے۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اگر میاں نواز شریف نے سیاسی تدبراورتحمل سے کام لیا ہوتا، اداروں کے خلاف محاذ آرائی نہ کی ہوتی اور ڈان لیکس کا قضیہ پیش نہ آیا ہوتا تو وہ آج بھی اس ملک کے وزیر اعظم ہوتے۔ اسی طرح مرد حر آصف علی زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجادینے کا غیرضروری ڈائیلاگ نہ بولا ہوتا تو اقتدار منزل میں پڑائو کی اگلی باری ان کی ہوتی۔ مجید نظامی صاحب کہتے تھے میاں نواز شریف مال بنا سکتے ہیں، زرخریدی حکومت بنا سکتے ہیں،حزب اختلاف کی سیاست نہیں کر سکتے اور نہ ہی جیل کی صعوبتیں برداشت کر سکتے ہیں۔ اس معاملے میں ایک زرداری سب پر بھاری کے مصداق آصف علی زرداری کوایک بار پھر قید و بند میں ڈالا گیا توشدید بیماریوں کے باوجود انکے عزائم اورسیاسی ارادوں پر کوئی حرف نہیں آیا اور انہوں نے ایک بار پھر مجید نظامی صاحب کے لقب کی لاج رکھ لی ہے۔ اب یہ ڈھیل سے ہوا یا ڈیل سے ،گردوغبار میں اٹی اس سیاسی فضا میںان بکھیڑوں میں کون پڑتا ہے؟