شہر یار آفریدی ، جان جنہوں نے اللہ کو دینی ہے ، ایسے ایسے نوشتے اغیار کو دکھاتے ہیں کہ حیرتوں کو صحرا بھی تنگ پڑ جائے۔ شدت جذبات میں بات کرنے سے پہلے اس تکلف کا یارا نہ ہو تو ازرہ مروت آدمی بات کرنے کے بعد ہی سوچ لیا کرے کہ شیریں دہنی نے آج کتنی قیامتیں ڈھا دی ہیں۔ ایک روز آپ نے ارشاد فرمایا: اسلام آباد کے 70 فیصد طلباء منشیات استعمال کرتے ہیں۔ یہ اتنی غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ بات تھی کہ انسداد منشیات فورس کے ڈائرکٹر جنرل ، میجر جنرل عارف ملک کو اس کی تردید کرنا پڑی۔صاحب کی شعلہ بیانی کا تازہ ہدف مدارس ہیں۔ ہر وقت شدت جذبات میں رہنا مناسب نہیں ہوتا۔ کبھی خود کو تھام بھی لینا چاہیے۔ انسداد منشیات کی وزارت کا اضافی چارج مل جانے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اب کارکردگی تب ہی ثابت ہوگی جب دو تہائی آبادی کو منشیات کا عادی قرار دے دیا جائے۔ ذمہ دار منصب ذمہ دارانہ رویے کا تقاضا کرتے ہیں ۔اس تقاضے سے بے نیازی کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کے منہ سے نکلے لفظ اپنا اعتبار کھو دیتے ہیں۔ جب یہ حادثہ بیت جائے تو لہجے کی ساری شعلہ بیانیاں اور بدن بولی کا سارا اضطراب مل کر بھی آپ کے منہ سے ادا ہونے والے لفظوں کو حرمت نہیں دے سکتے۔ دلیل کیا تھی؟ یہی کہ وزیر محترم کو ایک خبر ملی کسی مدرسے کے معلم نے طلباء سے کہا یادداشت بہتر بنانے کے لیے منشیات کا استعمال کیجیے۔ اس مجہول سی اطلاع کو اس وقت تک معتبر نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ اس مدرسے کے طلباء کا طبی معائنہ نہ کر لیا جائے۔ پھر معلوم ہو جائے کہ اس مدرسے کے کتنے طلباء منشیات کے عادی ہیں اور وہ کون سا نشہ کرتے ہیں۔ وزیر محترم نے ایسے کسی تردد میں پڑے بغیر اس خبر کو بنیاد بنایا اور پھر اپنی روایتی بے چین قسم کی شعلہ بیانی سے کشتوں کے پشتے لگ دیے۔ فرمایا میں تمام علمائے دین سے درخواست کرتا ہوں آگے برھیں ہم مل بیٹھیں اور اس مسئلے کو حل کریں۔ انہوں نے شعلہ بیانی سے یوں ماحول بنا دیا جیسے مدارس منشیات کی لعنت سے دوچار ہوئے پڑے ہیں ، ہر دوسرا مہتمم اور ہر تیسرا طالب علم منشیات کا عادی ہے ، سورت حال انتہائی نازک ہو گئی ہے اور اب اس سے نبٹنے کا طریقہ یہ ہے کہ تمام علمائے کرام آگے آئیں تا کہ شہر یار آفریدی صاحب ان سے مل کر بیٹھیں اور مدارس کو منشیات سے پاک کیا جائے۔ شہر یار آفریدی صاحب کی سخن آرائی کا حاصل سوالات ہی سوالات ہیں۔مدرسہ کون سا ہے اس کا نام کیا ہے ؟ جس عالم نے طلباء کو منشیات استعمال کرنے کا کہا، اس عالم کا نام کیا ہے؟ کتنے طلباء کو یہ مشوورہ دیا گیا ؟ مدرسہ کس شہر میں واقع ہے؟ وزیر محترم کو کیسے خبر ہوئی؟ کیا بچوں نے نے انہیں شکایت کی ؟ کیا کہیں ایف آئی آر درج درج ہوئی؟ سب سے معتبر ایوان میں کھڑے ہو کر یہ بات کرنے سے پہلے وزیر با تدبیر نے کوئی تحقیق کی یا سنی سنائی بات آگے بیان فرما دی؟کیسے تعین کیا جائے اس بات میں صحت کتنی ہے اور زیب داستان کے کتنے کلومیٹر اس میں شامل کیے گئے ہیں؟ کیا محض اس لیے رائی کا پہاڑ بنا دیا گیا کہ جے یو آئی سے سیاسی مخالفت ہے اور مذہبی طبقہ کسی بھی عنوان سے کٹہرے میں کھڑا کرنا ایک روح افزا تجربہ ہوتا ہے ۔کبھی سکولوں اور کالجوں میں سوالنامے بھیجے جا رہے ہیںاور کبھی مدارس پر انگلی اٹھ رہی ہے۔ انسداد منشیات کی مہم اسی طرح چلانی ہے تو ذرا پارلیمان سے آغاز کر لیجیے۔ تمام فاضل اراکین پارلیمان کا میڈیکل ٹیسٹ کروا لیجیے اور اس کا آغاز کابینہ سے کیجیے ، دیکھتے ہیں پھر کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔نیک کام میں پوری قوم کے لیے ایک مثال قائم کر دینے میں حرج ہی کیا ہے؟ مبالغہ آمیز اور غیر ذمہ دارانہ طرز گفتگو کا آزار بڑھتا جا رہا ہے ۔ وزرائے کرام کے لہجوں کا یہ سونامی اسی طرح آگے بڑھتا رہا تو معاملہ اذیت کی حد تک تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔ خدا نخواستہ کہیں کوئی کمی رہ جائے تو کپتان خود بروئے کار آتے ہیں اور دنیا پکار اٹھتی ہے: اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی۔ ترک صدر دورے پر ہیں ، معزز مہمان کشمیر کی بات کر رہے ہیں اور پاکستان میں معاشی امکانات کی نوید سنا رہے ہیں لیکن ہمارے وزیر اعظم اس موقع پر بھی داخلی سیاست کے گرداب سے باہر آنے کو تیار نہیں اور ان کا ارشاد تازہ یہ ہے کہ فضل الرحمن پر آرٹیکل 6 کا مقدمہ قائم کرنا چاہیے۔اپوزیشن نے بھی کیا نصیب پایا ہے ، کوئی سوختنی ہے تو کوئی گردن زدنی ہے۔نئے پاکستان میں رشک عقیق یمنی اب وہی ہے جس کا ہر پہر خواہ مخواہ ہی نچنے نوں دل کردا ہو۔ ترک صدر کا دورہ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ جس جرات کے ساتھ انہوں نے کشمیر کی بات تھی ، حکمت کا تقاضا تھا کہ اس دن کی بڑی خبر ترک صدر کا یہی بیان ہوتا۔ مقامی سیاست پر رجز پڑھنے کا یہ کوئی موقع نہ تھا۔ نفرت کا یہ دیوان ہم صبح شام ہی سن رہے ہیں، کوئی غزل رہ گئی تھی تو بعد میں بھی ارشاد فرمائی جا سکتی تھی۔ لیکن عین اس موقع پر جب ترک صدر ہماری سفارت کاری کو سہارا دے رہے تھے ہمارا بلبل ہزار داستان مولانا فضل الرحمن کی ہجو کہہ رہا تھا۔ پانچ فروری کو آزاد کشمیر میں بھی ایک قومی تقریب میں وزیر اعظم نے یہی غزل کہی کہ میں نے کسی نہیں چھوڑنا اور آج جب طیب اردوان نے کشمیر کی بات کی تو ہمارے وزیر اعظم کو پھر اپنی غزل یاد آ گئی۔ سوال تو اٹھے گا کہ کیا یہ محض اتفاق ہے جب کشمیر کی بات ہوتی ہے عمران بات بدل دیتے ہیں؟ عجیب طرز حکومت ہے۔ ایک رسم سی بن گئی ہے کہ قافلہ انقلاب کے علاوہ کسی کے سر پر دستار نہ رہنے پائے۔گفتار کے داروغے منادی دیتے پھر رہے ہیں کہ کوئی نہ سر اٹھا کر چلے۔ عزت صرف اس کے لیے ہے جو قافلہ انقلاب کے ساتھ شامل ہو گیا۔ جو اس حلقہ ِ جنون سے باہر ہے وہ کرپٹ ہے ، بے ایمان ہے، اسے چھوڑنا نہیں چاہیے ، اسے الٹا لٹکا دینا چاہیے ، اسے کھا جانا چاہیے ۔یہ رویہ بہت خطرناک ہے۔ پارلیمانی جمہوری نظام اس رویے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔جمہوریت طرز حکومت کا نام نہیں۔ یہ طرز زندگی کا نام ہے۔اس میں دوسروں کے وجود کو برداشت کیا جاتا ہے۔اوج و موج کا آشوب بن کر ان کے دامن سے نہیں لپٹ جایا جاتا۔ ہر آدمی اپنی افتاد طبع کا اسیر ہوتا ہے۔ پھر یہ اقتدار کا اودھم آدمی کو بے نقاب بھی بہت کرتا ہے ۔لیکن اخلاقی وجود کے باب میں ایسی بے نیازی پہلے کبھی نہ تھی۔ یہ کام پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔ ہر کام پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔ ، چشم فلک بھی حیران ہے یہ ہو کیا رہا ہے۔ میر نے کہا تھا : نہیں تاب لاتا دل زار اب بہت ہم نے صبر و تحمل کیا