نبی آخرالزمانؐ دنیا کی ظلمتوں کو دور کرنے کے لیے اس عالم رنگ و بود میں بارہ ربیع الاول کو تشریف لائے۔ آج کے دن مبارک محترم، بہار آفرین دن، گھر، آنگن ، گلی محلے، شہر، روشنیوں سے جگمگارہے ہیں۔ عمارتوں، مسجدوں، گھروں پر چراغاں کیا گیا ہے لیکن دلوں کا عالم تو ایک اندھیرے میں ڈوبا ہے۔ دل اور روح کی فضا میں ظلمتوں کا ڈیرہ ہے۔ دل کا عالم یہ ہے کہ وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کے دلوں سے خوف خدا گیا۔ وہ پڑی ہیں روز قیامتیں۔ کہ خیال روز جزا گیا۔ دل میں ہوس کا بت خانہ آباد ہے۔ دلوں میں حسد کی الائو جل رہا ہے۔ دلوں میں لالچ، بغض اور بددیانتی کا ڈیرہ ہے۔ دلوں میں بے حیائی، بے پردگی، بے راہ روی کے کشش ہے۔ دلوں میں یتیم کا مال کھانے کی پلاننگ ہے۔ دلوں میں کمزور کے ساتھ بدسلوکی، ناانصافی کا چلن ہے۔ دل عشق نبیؐ سے آباد کہاں ہیں؟ اگر دل کی زمین پر عشق نبیؐ کا بوٹا لگا ہوتا تو ہر جانب جھوٹ کا کاروبار نہ ہوتا۔ حکمرانوں، طاقتوروں، دولت مندوں، بااختیاروں اور بااثروں سے لے کر غریبوں، کمزوروں، دیہاڑی داروں، مزدوروں، مزارعوں، بے کسوں، بے نوائوں تک، ہم سب جھوٹ بولتے ہیں، ہمارے وعدے جھوٹے، ہماری باتیں جھوٹی، ہمارے کاروبار جھوٹ کا مرقع۔ ہماری سیاست جھوٹ اور بددیانتی کا دوسرا نام۔ ہمارے حکمران وعدہ خلاف، باتوں سے محل تعمیر کرنے والے، باتوں سے مکرنے والے، یوٹرن لینے والے اور باتوں کا ’’کھٹیا ‘‘کھانے والے۔ ہمارے عالم دین ظاہر میں جبہ و دستار اور باطن میں ہوس کار اور مکار، مفاد کے غلام، مذہب کو بیچنے والے، اپنے مفاد کی تسبیح روز و شب پڑھنے والے، ہمارے صحافی، کالم نگار، تجزیہ کرنے والے سماجی و سیاسی دانشور سچ کے سامنے مصلحت کا شکار، حق، سچ اور دین کی بات کرنے سے بیزار، حکمرانوں اور سماج کے طاقتوروں کی دہلیز کے دریوزہ گر۔ ہم سب اپنے اپنے مالی مفاد کے گرد طواف کرتے ہوئے قلمکار ہیں۔ حق اور سچ کی علمبرداری کے نعرے سب فریب ہیں۔ ہمارا کام ہر شام سیاستدانوں کے دیئے گئے بیانات کی الٹیوں کو صاف کرنا اور پھر ان الٹیوں سے اپنے ٹاک شوز کو سجانا ہے۔ اس بستی میں ہر روز یتیموں کا حق کھایا جاتا ہے،بیوائوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، بے کس اور بے نوا بھوکے، پیاسے، بغیر دوا دارو کے بستی بستی قریہ، زندگی کا جبر سہتے روزمرتے روز جیتے ہیں لیکن ان بے کسوں کے مسئلے، نام نہاد پرائم ٹائم میں جگہ نہیں پاتے اور ہمارے حق اور سچ کہنے والے تجزیہ نگار ہر شام ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر سیاسی تجزیہ نگاری کی ڈگڈگی بجاتے رہتے ہیں۔ ایک لمحے کو ذرا سوچیں صرف ایک لمحے کو کہ اگر ہم نبی آخرالزمانؐ کے ماننے والے ہیں تو پھر ان کی تعلیمات سے ہماری سوچیں، ہمارے افکار، ہمارے اعمال، ہمارے فیصلے، ہمارے شب و روز مزین کیوں نہیں ہیں؟ نبی ؐ نے فرمایا وعدہ خلافی نہ کرو اور ہم نے وعدے کرنے اور وعدے توڑنے کو اپنا معمول بنا لیا۔ ہم اپنی ذاتی زندگیوں میں بھی یہی کرتے ہیں۔ کبھی کسی تقریب میں جانے کا وعدہ کرلیا۔ ملاقات کا وعدہ کرلیا، کسی کا کوئی کام کرانے کا وعدہ کرلیا اور پھر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ ہمارے حکمرانوں کی ہر تقریر، ہر نیا پراجیکٹ، جھوٹے وعدوں کا پلندہ ہوتا ہے۔ ہماری الیکشن مہم جھوٹ اور جھوٹے وعدوں کا ایک مقابلہ ہوتی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان کہ کون کتنے خوشنما وعدوں کا جال بچھا کر عوام کو پھنسائے گا۔ یہ جو سیاسی منشور نامی کوئی چیز ہے صرف جھوٹے وعدوں کی دستاویز ہی تو ہے۔ اب نبی پاک ﷺ کی حیات مبارکہ پر نگاہ ڈالیں کہ وعدے کے حوالے سے آپؐ کی تعلیمات کیا ہے، کردار کیا ہے، آپ کو خود ہی اندازہ ہوگا کہ ہم روشنی کے اس مرکز و محور سے کتنے دور ہیں۔ خاتم النبینؐ نے فرمایا آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے ہی کافی ہے کہ سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے پھیلاتا ہے اور ہم اس کے علاوہ اور کرتے کیا ہیں؟ سوشل میڈیا کے کھونٹے سے بندھی ساری قوم دن رات سنی سنائی باتوں کی رائی اٹھا کر اس کے پہاڑ بناتی ہے اور دھڑا دھڑ آگے پھیلاتی رہتی ہے۔ حدیث قدسی کے آئینے میں دیکھیں تو کون ہے ہم سے بڑا جھوٹا۔ فرمایا کہ وہ شخص مسلمان نہیں ہو سکتا جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہ ہوں۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ اسلام کے داعی، عاشق رسول ہونے کے دعویدار جب ذرا سڑکوں پر جمگٹھے لگا کر احتجاج کرنے کو نکل آئیں تو لوگ اپنی جان مال اور عزتیں غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ ایمان کی حرارت والوں کی لوٹ کھسوٹ، جلائو گھیرائو کے تازہ ترین منظر ابھی نومبر کے پہلے ہفتے میں سب نے ملاحظہ کئے ہیں۔ میرے نبی ﷺ نے فرمایا صدقہ و خیرات اس طرح کرو کہ غریب کی عزت نفس محفوظ رہے۔ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ لیکن ہم نمائش، نمود اور میڈیا کوریج کے دلدادہ لوگوں کا گزارا بھلا خاموشی سے غریب کی مدد کرنے میں کہاں ہوتا ہے۔ نبی رحمت ﷺ نے فرمایا کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔ وہ میڈیا ہائوسز بھی کل جشن عید میلادالنبی کے خصوصی ایڈیشن چھاپیں گے جنہوں نے اپنے مزدوروں کی تین تین مہینوں کی تنخواہیں ادا نہیں کیں۔ فرمایا کہ جس مزدور کو اس کے کام کی کم اجرت ملے گی۔ میں قیامت کے روز خود اس کا مقدمہ لڑوں گا۔ (مفہوم حدیث) اور آج ہمارے ادارے، کارخانے، کمپنیاں، ہزاروں لوگوں کو ہائر کرتے ہیں مگر مزدوروں کے حقوق کی دستاویز لیبر لاز کو نافذ نہیں کرتے کہ کہیں مزدور کو پوری اجرت نہ دینی پڑ جائے۔ ان تمام کارخانوں، اداروں، کمپنیوں، فیکٹریوں کی بلند بالا عمارتوں پر بھی عید میلادالنبیؐ کا چراغاں ہو گا۔ ہمارا المیہ ہے برقی قمقمے تو ہر جگہ جگمگا رہے ہیں لیکن دل اور روح کی دنیا میں ایک سناٹا ہے۔ تاریکی ہے، اس لیے کہ ہمارا ہمارے نبی آخرالزمانؐ سے تعلق، رواج، رسمیں اور روایتیں نبھانے تک محدود ہے۔ میرے نبیؐ جو روشنی دل کی دنیا کو منور کرنے کے لیے لائے تھے وہ چراغ ہم نے اپنی روح کے اندر روشن کئے نہیں۔