سعودی شہزادے محمد بن سلمان کا پاکستان آنا ایسے ہی ہے جیسے کسی غریب ماتڑ کے گھر کروڑ پتی رشتہ دار ازرہ کرم آ جائے اس کے آنے سے بہت سے امیدیں‘ خوشیاں‘ خواب اور خدشات غریب مسکین کے دل میںسر اٹھانے لگیں! خستہ حال مکان میں بٹھانے کو کوئی جگہ اس کے شایان شان نہ ملے غریب صاحب خانہ اگر اپنی منجی پیڑھی جھاڑ کر اور صندوق میں کسی خاص موقع کے لئے سینت سینت کر رکھی گل بوٹوں والی سفید اجلی چادریں نکال کر اس کے استقبال کو بچھائے تو وہ بھی مہمان کی امارت کے جاہ جلال کے سامنے گدلی گدلی لگنے لگیں۔ ’’تھی خبر ان کے آنے کی آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا‘‘۔ والی صورت حال پیدا ہوجائے۔ لیکن بھلا ہو ہمارے شاہی مہمان کا کہ وہ وطن عزیز میں اپنے قیام کا ضروری سازو سامان حفاظتی بندوبست اپنے ساتھ ہی لا رہے ہیں۔ کم و بیش آٹھ کنٹینرز پر ان اور ان کے ساتھ آنے والے سعودی اہلکاروں کا سامان پاکستان پہنچ چکا ہے ایک خبر کے مطابق پاکستان میں اپنے قیام کے دوران سعودی شہزادہ اور ان کا شاہی لائو لشکر سعودی عرب سے ساتھ لایا ہوا سامان استعمال کریں گے۔ سعودی پرنس محمد بن سلمان جو گاڑیاں استعمال کریں گے وہ بھی سعودی عرب سے آئی ہیں یہ اور بات کہ پاکستان کی سرکار شہزادے کے شایان شان استقبال کرنے کے لئے اپنے وسائل سے بڑھ کر کوششیں کر رہی ہے اور اس سلسلے میں شاہی وفد کے لئے تین سو سپر لگژری لینڈ کروزر گاڑیاں پہلے ہی بک کر لی گئیں ہیں۔ شہزادے کے قیام کو پاکستان جیسے غیر محفوظ اور امن و امان کی غیر یقینی صورت حال سے دو چار ملک میں محفوظ تر پرسکون اور آرام دہ بنانے کے لئے اسلامی فوجی اتحاد کا ایک چاق و چوبند دستہ جو 235افراد پر مشتمل ہے پہلے ہی پاکستان پہنچ کر سکیورٹی کے تمام انتظامات سنبھال چکا ہے اور اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ کوئی اور نہیں ہمارے جانے پہچانے اور مقبول ترین سابق آرمی چیف راحیل شریف ہیں۔ سعودی شہزادے کی پاکستان میں آمد پر انتظامات لکھتے لکھتے میرا غریب اور مسکین قلم ہانپنے لگا ہے۔ دلچسپ بات تو ہے کہ ہمارے شاہی مہمان جو ہمارے خانہ‘ بے چراغ میں تشریف لا کر ہماری عزت و توقیر بڑھا رہے ہیں۔ظاہر ہے ایک شہزادے کی آمد ایسی ہی غیر معمولی اور شاندار ہونی چاہیے۔ ایک اللہ والے کا قول ہے کہ جب کوئی مجھ پر احسان کرے تو وہ مجھے اپنا غلام بنا لیتا ہے۔ پھر ہم تو پچھلے 70برسوں سے سعودی شاہی خاندان کے احسانات کے بوجھ تلے دبے ہیں۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی وطن عزیز کے لئے جو مشکل گھڑی شروع ہوئی وہ آج تک ٹلی نہیں ہے۔ نہ ہم کبھی بحران کے دور سے نکلے نہ ادھر سے احسانات کا سلسلہ تمام ہوا۔ اب 2019ء میں پاکستان اپنے تمام تر بحرانوں اور مشکل گھڑیوں سمیت نئے پاکستان کے ایک نئے بحرانی دور میں داخل ہو چکا ہے سو احسانات کا۔ امداد کا۔ وہی پرانا سلسلہ جاری ہے۔ ہماری سماعتیں حکمرانوں کی طرف سے خوشخبریاں اور بشارتیں سننے کی عادی ہیں یہ اور بات کہ بصارتوں نے کبھی ان بیاناتی خوشخبریوں اور بشارتوں کو عملی شکل میں نہیں دیکھا یا پھر کم ہی دیکھا ہے۔ سو اس بار بھی اعلاناتی اور بیاناتی خوشخبریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور وزیر اعظم کے مشیر تجارت رزاق دائود کی مشترکہ پریس کانفرنس جو چند روز پیشتر ہوئی اس میں مہنگائی ناانصافی اور معاشی عدم مساوات کی ماری ہوئی قوم کو بہت سی خوشخبریاں سنائی گئیں۔ اس میں ہمیں بتایا گیا کہ ہم کرہ ارض پر خوش قسمت قوم بننے والے ہیں کہ ولی عہد یہاں تشریف لا کر 6ارب ڈالر کی خطیر امداد کا اعلان کریں گے۔ ہمیں بتایا گیا کہ سعودی شاہی وفد میں ایک ہزار کے قریب بزنس مین بھی شامل ہیں ان کے ساتھ ہی سرمایہ کاری کے کئی معاہدے ہوں گے۔ سعودی عرب‘ پاکستان میں آئل ریفائنری اور توانائی کے دیگر پراجیکٹس میں بھاری سرمایہ کاری کرے گا۔ وزیر اعظم تو یہ بھی اعلان فرما رہے ہیں کہ ملک مشکل کے دور سے باہر نکل آیا ہے اگرچہ بجلی اور گیس کے اضافی بلوں کے ستائے ہوئے عوام کو ابھی یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اگر ملک مشکل کے دور سے نکل آیا تو ان کی مشکلیں کب آسان ہوں گی یا پھر ان کی مشکلوں کو آسان کرنے کے لئے غالب کا کہا ہوا لاگو ہو گا کہ مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں۔ ویسے پی ٹی آئی کے ابتدائی چند مہینوں کے طرز حکومت نے لوگوں کو اتنی ٹریننگ ضرور دے دی ہے کہ اب وہ خان صاحب کی بشارتوں اور خوشخبریوں پر فوراً ایمان نہیں لاتے نہ ہی ان کے کہے ہوئے انقلابی فرمانوں سے جی کو بہلاتے ہیں اور اس کی وجہ بہت سادہ سی ہے یعنی کہ خان صاحب ہی ایک عام سے سیاستدان نکلے۔ یعنی عوام کا دل بہلانے کو جتنے مرضی بیاناتی اور اعلاناتی انقلابی دعوے اور وعدے کرتے رہو۔ جب اقتدار ملے تو پھر وہی کرو جو شہر اقتدار کا مزاج رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی امداد کو اپنی خودکشی سے مربوط اور مشروط کرنے والے بنفس نفیس آئی ایم ایف کے سرکار کے حضور پہنچے۔ اسی طرح وزیر اعظم ہائوس کو یونیورسٹی میں بدلنے کے اعلانات بھی ہم سب کے سامنے تھے اور یہ بھی خبر آئی کہ وزیر اعظم عمران خان نے اس حوالے سے ایک خصوصی کمیٹی بھی بنائی ہے جو جائزہ لے گی کہ وزیر اعظم کے وسیع و عریض گھر کیسے تعلیمی ادارے میں بدلا جا سکے۔ بہرحال اب تازہ ترین اطلاع یہی ہے کہ وزیر اعظم ہائوس کی تزئین و آرائش کی جاری رہے کہ ہمارے شاہی مہمان وہیں قیام کریں گے۔ سادگی کے سب دعوے پروین شاکر کے اس شعر کی نذر ہو چکے ہیں! آمد پہ تیرے عطر و چراغ و سبو نہ ہو اتنا بھی بودو باش کو سادہ نہیں کیا