میری کوشش بار آور ہوئی کہ میرے دیرینہ دوست یعقوب پرواز جنہوں نے خاصی بزرگی اوڑھ لی ہے میرے ٹی وی پروگرام میں تشریف لائے۔ اس مرتبہ نعتیہ محفل تھی۔ میرے لیے تعجب کی بات تھی کہ انہوں نے اپنی مشہور نعت ترنم سے پڑھنا شروع کی تو ایک سماں باندھ دیا۔ خوبی ان کی یہی کہ وہ کوئی باقاعدہ نعت خواں نہیں۔ ایک بے ساختہ اور فطری انداز کہ جیسے آمد رحمت ہوئی۔ اسی طرح ان کے لفظوں میں ڈھل رہی تھی۔ سو زوگداز سے لبریز، محبت و مودت میں بھیگی ہوئی اور فکر و تدبر میں گندھی ہوئی: جس طرح ملتے ہیں لب نام محمدؐ کے سبب کاش ہم مل جائیں سب نام محمدؐ کے سبب تھا کہاں پہلے ہمیں حفظ مراتب کا لحاظ ہم نے سکیھا ہے ادب نام محمدؐ کے سبب اس نعت میں محبت، یگانگت اور یکجہتی کا پیغام بھی ہے اور اس محبت کا مرکز محمدﷺ ہیں۔ انہی کو مرکز خان کریم دائرہ کھینچ سکتے ہیں اور پھر سب کچھ اس دائرے کے اندر آ جائے گا کچھ بھی باہر نہیں رہے گا۔ سارے فروعی مسائل جاتے رہیں گے۔ خیر میں کیا لکھوں آپ خود سمجھدار ہیں۔ میں تو ایک ایسے لمحے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو مجھے کہیں کا کہیں لے گیا۔ یعقوب پرواز نے جب اپنے سے انداز میں اپنی ایک حسین خواہش کو شعر کیا تو ہم آبدیدیہ ہو گئے۔ وہ ان کی نعت کا قطع تھا: مزہ پرواز آ جائے سپرد خاک ہونے کا غلامان محمدؐ نے مری میت اٹھائی ہو مجھے معاً الحاج محمد علی ظہوری یاد آ گئے۔ ان سے میری دوستی تھی۔ وہ اقبال ٹائون میں میرے پڑوس میں رہتے تھے۔ گلشن اقبال میں ٹاکرہ ہوتا۔ ان کی ساری کتب اور کلیات میں نے ہی شائع کروائی۔ وہ بڑے زندہ دل تھے کہ حضورؐ کے نام پر ایک کیفیت میں چلے جاتے، ویسے بھی وہ نعت کے پیکر میں ڈھلے ہوئے تھے۔ وہ مجھے بہت یاد آئے کہ جب میں ان کے جنازہ پر پہنچا۔ بے شمار عاشقان رسولؐ اپنے محبوب نعت گو اور نعت خواں کی زیارت کرنے آئے ہوئے جس مطابقت سے مجھے یہ سب کچھ یاد آیا۔ وہ ان کی غالباً آخری نعت تھی اور ان کی وصیت کے مطابق ان کو خاک میں اتارتے ہوئے پڑھی جار رہی تھی۔ یہ آرزو نہیں کہ دعائیں ہزار دو پڑھ کر نبیؐ کی نعت لحد میں اتار دو اس کے بعد ان کے ساتھ بیتے ہوئے لمحے مجھے یاد آنے لگے۔ ان کا لحن دائودی اور آقا کی نعت۔ وہ ثنا خوانی کا فن بھی جانتے تھے۔ میں ان کے ساتھ کچھ محفلوں میں گیا۔ وہ نعت پڑھتے ہوئے درمیان میں فارسی اشعار بھی داخل کرتے جاتے۔ نعت گوئی اور پھر نعت خوانی، دو آتشہ معاملہ تھا۔ ان کے شعر کو بہت مقبولیت ملی۔ اشعار ان کے دلی جذبوں سے معمور نظر آتے ہیں۔ مشاہد اور احساس کا پتہ دیتے ہوئے اشعار: جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے اللہ کی رحمت کے آثار نظر آئے بس یاد رہا اتنا سینے سے لگی جالی پھر یاد نہیں کیا کیا انوار نظر آئے وہ زاہد خشک ہرگز نہیں تھے۔ بزلہ سنجی اور گفتگو کا سلیقہ۔ وہ بزم آرائی بھی کرتے تھے۔ خاص طور پر جب وہ عمرہ یا حج کرکے آئے تو اپنے گھر پر تمام اہم اور نامور شعرا کو بلایا جن میں احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی اور شہزاد احمد سمیت کئی شعرا آئے۔انہوں نے ہمیں چنیوٹ کا بنا ہوا کنّہ کھلایا۔ انہوں نے جو تازہ نعتیں مدینہ میں کہی تھیں ہمیں سنائیں اور سرشار کردیا۔ ان کے ایک نعتیہ مجموعہ کا نام ’’کتھے تیری ثنا‘‘ بھی ہے کہ حضرت مہر علی شاہ صاحب کی نعت سے بھی مناسبت رہے: کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا گستاخ اکھیاں کتے جا اڑیاں آپ دیکھتے ہیں کہ اکثر نعت خواں ظہوری کی نعتیں پڑھتے ہیں۔ میں نے اوائل عمر میں ان کی یہ عقیدتوں میں گندھی ہوئی نعت سنی۔ ’’کڈا سوہنا نام محمدؐ دا، اس ناں دیاں ریساں کون کرے۔‘‘ ان کے بیٹے نعیم صاحب کبھی کبھی ملنے آتے ہیں۔ انہوں نے سی ڈیز وغیرہ بھی تیار کروائی ہیں۔ نعت کا معاملہ محبت، مودت اور تقدیس کا معاملہ ہے اور پھر یہاں سامنے کائنات کی سب سے بڑی ہستی ہوتی ہے۔ ثنا خواں اپنی بساط بھر اظہار عقیدت کرتا ہے۔ اعظم چشتی کا شعر دیکھئے کہ سب کی نمائندگی کرتا ہے: اپنا معیار زمانے سے جدا رکھتے ہیں ہم تو محبوب بھی محبوب خدا رکھتے ہیں بات شروع ہوئی تھی۔ یعقوب پرواز سے جن کے اندر کی تبدیلی بہت جلد چہرے مہرے یعنی باہر بھی نظر آنے لگی۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’شام سے پہلے‘‘ بائیں یا تئیس سال قبل شائع ہوا۔ اب تو وہ نعت کے ماحول میں رچ گئے اور ان کا نعتیہ مجموعہ شائع ہورہا ہے۔ وہ اسی کوشش میں رہتے ہیں کہ عقیدت کے پھولوں سے گلدستہ کیسے بنایا جائے: جذبہ دل کی ترجماں ہو کوئی نعت آپؐ کے شایان شان ہو کوئی نعت جھومتے جائیں ملائک وجد میں کاش رشک قدسیاں ہو کوئی نعت سامنے ہو روضہ خیرالوریٰ اور آنکھوں سے رواں ہو کوئی نعت تو میرے پیارے قارئین! میرا دل چاہا کہ اس گوشہ نشیں عاشق رسولؐ کا تذکرہ آپ کے سامنے کروں۔ یہ خیال کہاں سے آتا ہے، خدا ہی دل میں ڈالتا ہے کہ کوئی خبر لے میرے محبوبؐ سے محبت کرنے والے کی۔ تو یہ سعادت میرے حصے میں آئی۔ اس شاعر رسولؐ کے اشعار تو دیکھیں: محمدؐ کا ثنا گرہوں مدینہ میری منزل ہے مقدر کا سکندر ہوں مدینہ میری منزل ہے یہی ہے آرزو کچھ اور دن بھی ٹھوکریں کھائوں رہ بطحا کا پتھر ہوں مدینہ میری منزل ہے میرا جی چاہتا ہے کہ میں آج کا کالم خالد احمد کے دو نعتیہ اشعار پر ختم کروں: تیرےؐ اوصاف بھلا کس سے بیاں ہوتے ہیں نعت خود لکھی بہ پیرایہ سیرت لکھی خالد احمد تیریؐ نسبت سے ہے خالد احمد تو نے پاتال کی قسمت میں بھی رفعت لکھی