ایک نہیں دو نہیں پورے نو ۔نو مذاکرات کے ادوار وہ بھی وہ جو ریکارڈپہ ہیں، میڈیا پہ نظر آرہے ہیں اور جن پہ تجزیہ نگار حسب توفیق اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ بجا اور گا رہے ہیں۔ طالبان حسب معمول مزے میں ہیں۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور چند دیگر تقریبا ہر روز ہی کسی نہ کسی اہم علاقے یا چوکیوں پہ طالبان کے قبضے کی نوید سناتے ہیں۔ دو دن قبل ہی پل خمری ضلع میں کارروائیوں کے نتیجے میںمختلف چوکیوں اور اہم اڈوں پہ طالبان کے قبضے کے نتیجے میں بڑی مقدار میں اسلحہ اور عسکری سازو سامان مجاہدین کے ہاتھ لگا ہے اور کابل مزار اور کابل قندوز شاہراہ طالبان نے بند کررکھی ہے۔ اس سے قبل دوحہ مذاکرات کے نویں اور حالیہ دور میں جب امریکہ اور طالبان کے درمیان نتیجہ خیز معاہدے کا اعلان بھی ہو چکا تھا ، قندوز کے بڑے حصے پہ طالبان نے قبضہ کرلیا۔ کابل میں مسلسل کارروائیاں جاری ہیں۔ طالبان اپنی ان فتوحات کے ثبوت کے طور پہ اللہ اکبر کے نعرے لگاتے مجاہدین کی وڈیو بھی شیئر کرتے ہیں اور ان افغان فوجیوں کی بھی جو کسی ان لکھے معاہدے کے تحت خاموشی سے ہتھیار طالبان کے حوالے کردیتے ہیں۔اہم بات یہی ہے جس نے امریکہ اور اتحادیوں کو پریشان کررکھا ہے۔اہم بات یہ بھی ہے کہ امریکہ یا افغان حکومت میں سے کوئی بھی طالبان کے ان دعووں کی نفی نہیں کرتا۔ ہاں واقعہ کی تفصیلات میں فرق آجاتا ہے یا سارا مغربی میڈیا مل کر معصوم شہریوں کی ہلاکتوں پہ طالبان کو مورد الزام ٹھہرانے لگتا ہے لیکن اب دہشت گردی کے خلاف جنگ اتنی بوسیدہ اور دقیانوسی ہو چکی ہے کہ اس سے حقیقت حال پہ کوئی فرق نہیں پڑتا جہاں طالبان کا پلڑا بھاری ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے اگر جھٹلایا جاسکتا تو آج دوحہ میں مذاکرات کا بظاہر نواں دور نہ ہورہا ہوتا۔ جب وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہوتی اور مذاکرات سے ہی سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں تو ایک لحاظ سے وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔افغانستان میں جاری امریکی ہی نہیں دنیا بھر کی افواج پہ مشتمل نیٹو کی جارحیت کا اختتام بہرحا ل مذاکرات کی میز پہ ہوگا۔ ایک پہلو لیکن وہ فراموش کرجاتے ہیں۔ کیا ایسا طالبان کی طویل اور انتھک مزاحمت کے بغیر ممکن تھا؟کمزور ہتھیار اٹھاتا ہے تو طاقتور مذاکرات کی میز پہ آتے ہیں۔ ایسا ہی دنیا میں ہوتا آیا خواہ اس کے بعد شکست خوردہ صدر ٹرمپ یہ دعوی کرے کہ وہ جب چاہے ایک کروڑ لوگوں کو خاک میں ملا سکتا ہے لیکن ازراہ ترحم وہ ایسا نہیں کرے گا۔حالانکہ گزشتہ اٹھارہ برسوں میں کون سی کسر چھوڑی گئی ہے؟یہ سوال کون کرے گا۔ویت نام میں صدر نکسن نے بھی اپنے اٹھاون ہزار فوجی مروانے کے بعد مذاکرات کئے تھے اس کے باوجود ایک ایک امریکی فوجی کے نکل جانے تک ویت نام آگ اگلتا رہا۔ دوحہ میں مذاکرات کس کروٹ بیٹھیں گے یہ اب بھی کہنا مشکل ہے۔ زلمے خلیل زاد کے کسی معاہدے پہ پہنچنے کی خبر طالبان رد کرچکے ہیں۔دی اکنامسٹ کی رپورٹ کے مطابق مذاکرات کے ذریعے امن کا عمل نہایت خون ریز ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ طالبان جنگ بندی پہ اب تک تیار نہیں ہیں یعنی کم سے کم اس وقت تک جب تک جنگ بندی کا کوئی باقاعدہ معاہدہ تحریری شکل میں نہیں آجاتا۔ اس ہونے اور نہ ہوچکنے والے معاہدے کے تین نکات اہم ہیں جو دراصل طالبان سے امریکی مطالبات ہیں۔ ایک طالبان القاعدہ اور دیگر جہادی گروپوں کے خلاف کارروائیاں کریں گے۔دوم۔افغان حکومت کے ساتھ سیاسی اور انتظامی معاملات میں تعاون جو در حقیقت امریکہ طالبان مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں طالبان کی طرف سے دوسرا مرحلہ ہوگا۔ سوم مکمل جنگ بندی۔اس کے جواب میں امریکہ افغانستان میں موجود اپنے پانچ اڈوں سے پانچ ماہ کے اندر چودہ ہزار فوجیوں میں سے ساڑھے پانچ ہزار امریکی فوجی نکال لے گا جبکہ باقی بچ رہنے والے ساڑھے آٹھ ہزار فوجیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق امریکہ کی بجائے یورپ سے ہے ان کا مستقبل کیا ہوگا یہ امریکہ اور یورپ کے درمیان ایک نئے فساد کا نکتہ آغاز ہوسکتا ہے۔ یعنی جب آپ کو افغانستان فتح کرنا تھا تو آپ دنیا بھر کی فوج پہ مشتمل نیٹوکو اپنے ساتھ جوت کر چڑھائی کرگزرے اور اب جبکہ طالبان کسی کا لحاظ نہیں کررہے اور نصف سے زائد افغانستان پہ قابض ہوچکے تو آپ صرف اپنی فوج نکال کر بقیہ کو ہری جھنڈی دکھا رہے ہیں۔یہ بہرحال صدر ٹرمپ ہیں اور ان سے جوابدہی ذرا مشکل کام ہے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ میں نے قریبا ایک سال قبل ، ٹرمپ طالبان مذاکرات کے آغاز میں ہی لکھا تھا کہ مذاکرات میں کامیابی کی راہ میں ایک ہی رکاوٹ ہے اور وہ یہ کہ امریکہ افغانستان میں اپنے مستقل اڈوں کی موجودگی چاہتا ہے جو طالبان کی دست برد سے محفوظ رہیں تو ایسا ہی ہوا ہے۔امریکہ کم سے کم بگرام کا اڈہ جوں کا توں رکھنا چاہتا ہے اور طالبان سے اس کے تحفظ کی ضمانت بھی۔ اب یا تو طالبان مکمل امریکی انخلا اور اس ایک اڈے پہ راضی ہوجائیں یا نامکمل اور جزوی انخلا پہ۔دوسری صورت ان کیلئے زیادہ ناقابل قبول ہے اور پہلی صورت اگلے بیس برسوں کی تزویراتی نقشہ بندی کے لحاظ سے قابل قبول ہے یعنی کہ امریکہ افغانستان میں کم سے کم بگرام کا اڈا قائم رکھے۔کشمیر پہ امریکی ثالثی میں بھی غالبا یہی نکتہ رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ طالبان کو کیا مجبوری ہوسکتی ہے۔ وہ ہر لحاظ سے بالادست ہیں اور اپنے مطالبات منوانے کی پوزیشن میں ہیں بالخصوص اس وقت جب امریکی صدارتی انتخابات بھی سر پہ ہیں اور افغانستان میں بھی ۔فریقین چاہتے ہیں کہ مسئلے کا حل دونوں انتخابات سے قبل نکل آئے۔ سچ کہوں تو یہ بھی کابل حکومت اور امریکہ ہی کی خواہش ہے۔طالبان پہلے ہی افغان صدارتی انتخابات کو ہمیشہ کی طرح سبوتاژ کرنے کا اشارہ دے چکے ہیں۔ ایک مسئلہ اور بھی بنا ہوا ہے اور وہ طالبان کی وہ آئیڈیالوجی ہے جس نے یہ سارا کھڑاک شروع کیا تھا۔یعنی امارات شریعہ اسلامی افغانستان کا قیام جو شاید پہلے جیسی نہ ہو لیکن وہ ہوگی ضرور۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اٹھارہ سال جہاد کا ثمر جب کاٹا جائے تو اندر سے جمہوریت برآمد ہو۔ زلمے خلیل زاد نے واشگاف انداز میں اعلان کیا ہے کہ امریکہ اس پہ کبھی راضی نہیں ہوگا۔ طالبان اس پہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ راضی ہی کب تھا لیکن دل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا۔ اب وہ مکمل انخلا پہ راضی ہو جائے تو اچھا ہے ورنہ ویت نام میںبعد از خرابی بسیار صدر نکسن نے جنگ بندی کا معاہدہ کیا تو تھا لیکن آخری امریکی کے نکلنے تک ویت نام جہنم بنا رہا۔ معلوم نہیں کیوں طالبان کے حق میں ویت نام کی مثالیں دی جاتی ہیں۔شمالی ویت نام کی پشت پہ تو روس اور چین کھڑے تھے اور طالبان کی پشت پہ خدا کے سواکون تھا؟وہ خدا جس کی زمین طالبان کیلئے اجنبی ہوگئی تھی اور آج وہ جب چاہتے ہیں مذاکرات کی میز الٹ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔