ناول اپنا چہرہ خود بناتا ہے‘ کردار اپنا مقام خود بناتے ہیں ۔لکھنے والا ان کی نفسیات لکھتا ہے ۔میرا خیال ہے کہ عامر رانا نے اپنے ناول میر جان میں اپنے قاری کی یکسوئی کا امتحان لیاہے پڑھنے والے کو دیر تک پتہ ہی نہیں چلتا کہ کہانی کا سرا کہاں سے پکڑے ہیرو کون ہے اور ہیروئن کون‘ عام تکنیک یہ ہوتی ہے کہ ناول نگار چند کردار تخلیق کرتا ہے۔ ان کرداروں کے نقوش اور مزاج کو نمایاں کرتا ہے۔ان کے باطن کی فکری آنچ تک پہنچتا ہے اور پھراس روشنی کو بڑھا کر ان کے ہاتھ میں کہانی تھما دیتا ہے۔’’میرجان‘‘ میں ایسا نہیں۔کرداروں کے نقوش کہانی آگے بڑھنے کے ساتھ ابھرتے ہیں۔ یعنی کرداروں نے کہانی کو نہیں بلکہ کہانی نے کرداروں کو تھام رکھا ہے۔ میرجان کا لینڈ سکیپ گوادر اور اس کے نواحی بلوچستان پر مشتمل ہے۔مچھلی ، کھجور ،لال مٹھائی اور چائے ہی نہیں مقامی ماحول سے گندھی زبان اپنا تاثر چھوڑتی ہے۔ کہانی پھیلتی ہے تو لینڈ سکیپ وسیب کے علاقوں تک چلا جاتا ہے۔کئی کردار چونکہ ہجرت کرتے ہیں اس لئے 1947سے قبل کا ہندوستان اور افریقہ سے بلوچستان آنے والے کردار اپنی کہانیوں کو ناول کی مرکزی کہانی کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ عامر رانا کا ناول ’’میر جان‘‘ پڑھنے والا ہر قاری اور نقاد اس پر جو تبصرہ کرے گا وہ دوسرے قاری سے مختلف ہو گا۔یہ اس ناول کی بابت حیرت انگیز خوبی اس لئے سامنے آئی کہ اب تک جتنے تبصرے شائع ہوئے ہیں اکثر میں الگ الگ پہلو سے بات کی گئی ہے۔ ایک کہانی اس خاتون کی ہے جو افریقی نژاد ہے۔ انگریز کے خلاف مزاحمت کرنے والے سندھ باد جہازی کی بیٹی ہے۔جہازی کو گرفتار کرانے والا بچی کو ایک خاتون کے حوالے کر کے آوارہ گرد رہتا ہے۔پھر وہ بچی بڑی ہوتی ہے۔انگریز افسر سے ملانے لائی جاتی ہے‘ افسر اسے واپس لے جانے کو کہہ دیتا ہے۔اب اسے کہاں رکھے‘ کس کے سپرد کرے۔چند گھروں کی آبادی کے قریب ایک مکان بنا کر اسے وہاں رکھا جاتا ہے‘ ایک بزرگ خاتون کو اس کی دیکھ بھال سونپی جاتی ہے۔نگران عورت کبھی کبھی مہربان عورت بھی ہوتی ہے ۔پھر اسے لانے والا قالین باف اس کو میر جان کا نام دیتا ہے۔پہلے اس بستی کا نام ایک مقامی صاحب مزار کے نام پر تھا۔یہ مزار بھیایک خواب کے ذریعے اچانک دریافت ہوا تھا۔عقیدت مندوں نے قبر پختہ کرا دی‘ احاطہ بنوا دیا۔یہاں دھمال اور سماع شروع ہو گئے۔منتوں اور چراغ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔بستی کو ایک روحانی سرپرست مل گیا۔پھر میر جان آ گئی۔بستی والوں کو اس کی ذات میں اسرار محسوس ہوا۔اس کے حسن کی خودساختہ داستانیں عام ہوئیں اور بستی کا نام میرجان سے منسوب ہو گیا۔یہاں تک لوگوں میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔میرجان بزرگ کی عقیدت مند تھی اس لئے نام پر کوئی کشمکش نہ ہوئی۔مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب بستی پھیلنے لگی۔ مزار اور میرجان کا گھر ایک دوسرے کے حریف نہیں بلکہ بستی کا مشترکہ اثاثہ اور شناخت تھے۔مسئلہ تب پیدا ہوا جب بستی میں متشدد نظریات والی تنظیم کے لوگ آنے جانے لگے۔ان لوگوں نے نوجوانوں کو ورغلانا شروع کیا۔دو نوجوان جہاد افغانستان میں حصہ لینے چلے گئے۔ایک مارا گیاتو تنظیم والوں نے اس کی گلی کا نام شہید کے نام پر رکھ دیا۔بستی کا نام بدلنے پر پنچائت ہوئی۔اس پنچائت کے ذریعے کہانی کے کچھ کرداروں کے ساتھ لپٹے بھید کھولے گئے ہیں۔کچھ عشق کے قصے‘ کچھ اولاد کے جائز ناجائز ہونے کی باتیں۔کچھ بظاہر غیر سنجیدہ کرداروں کی سنجیدگی۔ یہاں پر ایک سوال کا جواب بھی ملا کہ ہمارے سماج میں ہمہ گیر ثقافتی و فکری نظریات والے لوگ کیسے معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ لوگ زمین پر امن برقرار رکھنے میں مددگار ہیں۔تشدد اور انتہا پسندی کو روکتے ہیں۔پاکستانی سماج میں جوں جوں عدم برداشت بڑھی اور تشدد کا کاروبار چمکا لوگ زندگی کی آسائشیں پانے کے لئے تشدد پسند سوچ‘ تشدد پسند تنظیموں اور تشدد پسند سرگرمیوں کے ساتھ جڑتے چلے گئے۔کہا جا سکتا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کا قانون سے بالاتر ہو جانا بھی تشدد کی پذیرائی کی ایک شکل ہے۔ عامر رانا نے بلوچستان کا ساحلی لینڈ سکیپ دکھانے کے لئے ان علاقوں کا بار بار مشاہدہ کیا۔ نئی آباد ہوتی بستیوں کی داستانوں میں سماجی تغیر کے ہلکے سے رنگ کو شناخت کر لینا آسان نہیں ہوتا۔ اس ناول کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کے زنانہ کردار مردانہ کرداروں کی نسبت زیادہ واضح نقوش چھوڑتے ہیں۔میرجان ہو‘ اس کی معاون خاتون ہو‘ وہ مظلوم کردار جس کو گناہگار قرار دے کر جلا دیا جاتا ہے‘ وہ کردار جسے باپ ایک سفر پر روانہ ہوتے وقت اپنے ہندو دوست کے حوالے کر جاتا ہے وہ بچی وہاں پرورش پاتی ہے‘ جوان ہوتی ہے‘ ہندو سرپرست کے مرنے پر اس کے بیٹے کے ساتھ رہتی ہے۔یہ اس وقت کی کہانی ہے جب بستیوں کے درمیان تالاب ہوا کرتے تھے‘ تالابوں کے گرد چند دکانیں ،سایہ دار پیڑ،ہنر مندوں کے اڈے اور چوپال ہوا کرتے تھے۔ میرجان پر عمومی تبصرہ کیا جا رہا ہے کہ یہ ایک خاتون کی شناخت کی داستان ہے۔میرے خیال میں اس ناول کو سیدھے سبھائو اسلوب کی بجائے تجریدی آمیزش کا حامل جان کر پڑھیں تو تبھی اس کے بطون میں رواں خیال تک پہنچا جا سکتا ہے۔یہ درست ہے کہ عامر رانا نے کئی ماہ قبل یہ ناول مجھے بھیجا اور میں نے اس پر لکھنے میں تاخیر کی۔شائد میں چاہتا تھا کہ ناول پڑھنے کے بعد جان سکوں کہ اس کا تاثر چار پانچ ماہ کے بعد کتنا تبدیل ہوتا ہے۔اعتراف کرتا ہوں کہ ایک ٹھوس صورت میں’’میرجان‘‘ میری یادداشت کا حصہ بن چکا ہے۔