پاکستان کے کسی بھی نیوز چینل کا اسائمنٹ ایڈیٹر دفتر میں کام کا آغاز کرتے ہی سب سے پہلے افواج پاکستان کی ویب سائٹ پر جاتا ہے یا پھر آئی ایس پی آر کے رپورٹرسے اسکا پہلا سوال یہی ہوتا ہے…’’ہاں بھئی !کچھ ہے تو نہیں ؟‘‘ اس مختصر سوال کا مطلب افواج پاکستان کے ترجمان ادارے کی کسی ممکنہ نیوز کانفرنس پریس بریفنگ یااس ادارے کی جاری ہونے والی کسی خبر کے بارے میں جاننا ہوتا ہے کہ اگر ایسی کوئی سرگرمی ہو تو وہ کیمرا مین، فوٹو گرافر اور رپورٹر کو وہاں جانے کے لئے ابھی سے پابند کر دے۔آئی ایس پی آر کی اہمیت اسی طرح سے قائم ہے۔ کوئی نیوز ایجنسی ہو ٹیلی وژن یا اخبار ریڈیو کا دفتراسکے لئے آئی ایس پی آراسی طرح سے اہم ہے یہاں ہونے والی نیوز کانفرنسیں اور یہاں سے جاری ہونے والے بیانات ہیڈلائنز میں جگہ پاتے ہیں سولہ جنوری کو بھی ایسا ہی ہواجب افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصٖف غفور کے تبادلے کی بریکنگ نیوز کیٹکر ٹیلی وژن اسکرین پر گھومتے نظر آئے ،میجر جنرل آصف غفور نے پندرہ دسمبر 2016ء کو افواج پاکستان کی ترجمانی کی ذمہ داری سنبھالی تھی ،اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ماسٹرز کرنے والے اس جرنیل نے چار سال تک بندوقوں اور ٹینکوں سے زیادہ خطرناک کیمروں کا سامنا کیا اور وہ پاکستان سے زیادہ پاکستان سے باہر ڈسکس ہوئے۔ فروری 2019ء میں بھارت کی جانب سے فضائی حملے کے دعوے کے بعد میجر جنرل آصف غفور کے ان الفاظ نے بھارتی میڈیا میں آگ لگا دی تھی۔ We will shut these monkeys down. And not the way they do it. Not through lies. We will do and let the whole Pakistan and the entire world know." میری آصف غفور صاحب سے کبھی ملاقات نہیں رہی کبھی فون پر کسی ایس ایم ایس کا تبادلہ ہوا نہ واٹس اپ پر رابطہ رہا بس ان کی کارکردگی ٹیلی وژن اسکرین پر ہی دیکھتا اور بالوں کی آڑھی مانگ نکالے سنجیدہ چہرے کے ساتھ کیمروں کا سامنا کرتے پاتا تھا،وہ جرنیلوں کی فہرست میں سب سے کم عمر تھے انہیں ہائیبرڈ وار کا کوئی تجربہ تھا نہ اس سے پہلے کبھی میڈیا سے واسطہ پڑاتھالیکن انہوں نے میڈیا کا خوب سامنا کیا انہیں لفظوں سے کھیلنا بھی آگیا اورپھر کم مسکرانے والے آصف غفور جارحانہ اورغیر روائتی لب و لہجے سے پاکستان میں تو کم ہی ڈسکس ہوئے البتہ بھارت میں ٖان کے خوب چرچے ہونے لگے وہ چار برسوں تک چیختے چنگھارتے بھارتی نیوز اینکروں کے اسکرپٹس کا حصہ بنے رہنے کے بعد 16جنوری کو اپنے تبادلے سے ایک بار پھرمیڈیا میں غالبا آخری بار شدت سے ڈسکس ہوئے اور پاکستان بھارت کے نیوز چینلز کی ہیڈلائینز کا حصہ بنے اب ان کی نئی ذمہ داریاں انہیں میڈیا سے فاصلے پررکھیں گی ۔ سابق ڈی جی آئی ایس پی آر ہوجانے کے بعد آصف غفور صاحب کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑی ہوئی ہے ٹوئٹر پر ان کے تبادلے کا ٹرینڈبنا،بھارتیوں نے بغلیں بجائیں بکرے بلائے توبہت بڑی تعداد میں ان کو پسند کرنے والوں نے ان کی پشت تھپکی،انہیں خراج تحسین پیش کیا میری میجر جنرل آصف غفور سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی کسی تقریب میں نہ نیوزکانفرنس میں ،اس لئے ذاتی حوالے سے میں ان کے بارے میں ایک جملہ بھی نہیں لکھ سکتا البتہ سرحد پار کے جرنیلوں اور رائے سازوں کے تبصرے بتاتے ہیں کہ عام سی شکل و صورت والا یہ جرنیل انہیں کافی نقصان پہنچا چکا ہے بھارت کا سائبر سیکیورٹی چیف لیفٹننٹ جنرل راجیش پنتھ دسمبر2019ء میں کہتا ہے پاکستان بیانئے کی جنگ جیت چکا ہے برطانوی تھنک ٹینک سے خطاب میں بھارتی لیفٹننٹ جنرل (ر) عطا حسنین کھل کر اعتراف کرتے ملتے ہیں کہ ہائی برڈ جنگ میں پاکستان جیت گیاا ور بھارت ہار گیااطلاعات کے میدان میں آئی ایس پی آر نے بھارت کو شکست دی،ہمیں انفارمیشن جنگ کی ٹیکنیکس آئی ایس پی آر سے سیکھنی چاہیئں،آئی ایس پی آر نے کشمیریوں کو بھارتی فوج اورقوم سے دور کر دیا،ہائی برڈ جنگ کیاہوتی ہے یہ ہمیں آئی ایس پی آر نے بتایا،بھارتی آن لائن اخبار The Printمیں مشہور دفاعی تجزیہ نگار پکھراج سنگھ نے آئی ایس پی آر کو آئی ایس آئی سے بڑا خطرہ قراردیا بھارتی جرنیلوں اور میڈیا کے ان اعترافات سے ہٹ کر آصف غفور صاحب کے جارحانہ انداز پر وطن عزیز کے سوشل میڈیا پر کچھ جانے مانے چہرے تنقید بھی کرتے رہے ہیں بعض پاکستانی صحافیوں کے نزدیک آصف غفور صاحب ضرورت سے زیادہ خبروں میں رہے اور غیر ضروری طور پر مداخلت کرتے پائے گئے ۔ آصف غفور صاحب کے جارحانہ انداز پر ناک بھوں چڑھانے والے آرمڈ کور کے میجر جنرل بابر افتخار کو کیسا پاتے ہیں یہ آنے والے چند دنوں میں پتہ چل جائے گا لیکن اتناضرورہے کہ وہ3000خوفناک اور بھیانک ٹینک رکھنے والی آرمرڈ کورکے دو ڈویژنوں میں سے ایک کی کمان کر رہے تھے،میجرجنرل بابر افتخاراسی بارعب کور سے ہیں وہ آپریشن ضرب عضب میں آرمر بریگیڈ اور انفنٹری بریگیڈ کی کمان بھی کر چکے ہیں،یقینی طور پروہ جانتے ہیں کہ کب ’’ضرار‘‘ کو حرکت میں لانا ہے اور کہاں ’’الخالد‘‘ کو آگے بڑھانا ہے لیکن وہ خاموش کیمروں کا سامنا پہلے بار کریں گے انہیں اب الخالد اور ضرار کے بیرل سے نہیں اپنے لب و لہجے اور الفاظ سے کام لیناہوگا کہتے ہیں آرمرٖڈ کورکوکم ہی حرکت میں لایا جاتاہے ،یہ خوفناک فولادی ٹینک نوشہرہ سے کم ہی باہر نکلتے ہیںیہی تکنیک یہاں بھی بہت کام آسکتی ہے رہی بات آصف غفور صاحب کے جانے پر سرحد پار خوشیوں کی تو پاک فوج کے نئے ترجمان نے اپنے پہلے بیان میں ہی کشمیر کوپاکستان کا حصہ اور جدوجہد حرئت کشمیر کی بھرپور حمائت کا اعادہ کرکے نئے بھارتی آرمی چیف کے آزادکشمیر لینے کے لئے پارلیمان کے حکم کے انتظار کاغیر مبہم جواب بھی دے دیا ہے اورساتھ ہی ہائیبرڈ وار کی باضابطہ کمان بھی سنبھال لی ہے۔