10سالہ میر حسن ابڑو کوئی سندھ کا پہلا بچہ تھوڑی ہے جو دوانہ ملنے پر اپنی ماں کی میلی غربت زدہ گود میں تڑپتا رہا۔ اس کی ہر ہچکی کی آواز برچھی بن کر ماں کے کلیجے پر قیامت ڈھاتی رہی۔ اور اس کی کراہیں بے بس مامتا کی روح کو کانٹوں پر اس طرح گھسیٹتی رہیں جیسے ململ کا دوپٹہ کانٹوں کی جھاڑیوں میں پھنس کر لیرو لیر ہو جاتا ہے۔ میر حسن ابڑو کوئی سندھ کا پہلا بچہ تھوڑی ہے جو دووا نہ ملنے پر تڑپ تڑپ کر ماں کی میلی گود میں دم توڑ گیا۔یہ سندھ ہے۔ سائیں۔ یہاں تو لاڑکانہ‘ گھوٹکی ‘ دادو اور شکار پور جیسے سندھ کے چھوٹے چھوٹے شہروں اور گھوٹھوں میں سینکڑوں ایڈز کے مریض بچے اپنی بے بس مائوں کی غربت زدہ میلی گودیوں میں دوائوں کے بغیر کراہتے اور موت کی آسانی کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ سندھ ہے سائیں! یہاں پراسرار طور پر ایک گائوں کے بیسیوں بچے ایڈز کے مریض بن جاتے ہیں تو اسے معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔ غریب کے لئے بیمار ہونا، لاغر ہونا ،دوا کے بغیر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا اس بستی میں ایک معمول سمجھا جاتا ہے۔ تو اگر ایسی بستی میں جہاں جینے کا حق ہی صرف بختاوروں ‘ بلاولوں ‘ زرداریوں کو حاصل ہو وہاں ایک میر حسن ابڑو کے مرنے پر اتنا واویلا کیوں! کیوں میر حسن ابڑو کی موت ہمیں رلاتی ہے۔ اس کا تڑ تڑپ کا جان دینا اس کی ماں کی بے بسی ہمارے احساس پر کچوکے لگاتی ہے۔ میر حسن اور اس کی ماں کو ذرا غور سے دیکھو شہر کے بڑے صاحب۔ کمشنر صاحب کے دفتر کے باہر زمین پر بیٹھی ہے ۔میلے کپڑے مدقوق چہرے کیا تمہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ میر حسن نے اپنی زندگی کے دس سال جو شکارپور کے ایک گائوں میں گزارے ہیں وہ ان دس سالوں میں اس کی زندگی کا معیار کیا ہو گا؟کیا وہ کسی اچھے سکول میں پڑھتا ہو گا یا پھر پڑھتا بھی ہو گا کہ نہیں!تین وقت کا پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہو گا۔ کھانے کو پھل دودھ ۔کھیلنے کو کھلونے۔ کیا اسے بھی دستیاب ہوں گے۔ ماں اور بیٹے کی بلکتی ہوئی کراہتی ہوئی تصویر چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ میر حسن نے اپنی زندگی کے کل دس سال غربت‘ افلاس اور جہالت میں گزارے۔ سندھ ساگر کی دھرتی پر وہ دس برس کی مختصر عمر جیا اور ان دس برسوں میں سندھ پر زرداری فیم بھٹو کی حکمرانی رہی ان دس برسوںمیں نہ جانے وہ کتنی بار بیمار ہوا تڑپا اور اسے دوا نہ ملی۔ نہ جانے کتنی بار اس نے اپنی ماں سے اپنی پسند کا کھلونا خریدنے کو پیسے مانگے۔ مگر ماں کی میلی اوڑھنی کے پلو پر صرف آنسو بندھے ہوئے تھے۔! مختصر عمر کے ان دس برسوں میں نہ جانے ننھے میر حسن کا دل کتنی بارپسند کا کھانا پیٹ بھر کھانے کو مچلا ہو گا مگر غربت کا جبر اس کی ان فطری اور بنیادی ضرورتوں کے آڑے آتا رہا ہو گا مگر دس برس جو میر حسن ابڑو کے لئے مسلسل غربت بھوک جہالت اور بیماری کے سال تھے۔ یہ دس برس سندھ کے حکمرانوں کے لئے خوشحالی اور مزید خوشحالی کے سال تھے۔ ان دس برسوں میں سندھ کے حکمرانوں کے اثاثے بڑھتے رہے ‘جائیدادیں پھیلتی پھولتی رہیں۔ اربوں ‘ کھربوں کے بینک بیلنس میں اضافہ ہوتا چلا گیا صرف ایک میر حسن تھا جو بے بسی اور غربت کی زندگی جیتا رہا۔ کرپشن ناانصافی حکمرانوں کی بے حسی کے ریبیز کتے تو اس کی زندگی کو ویسے ہی کاٹ کھاتے رہے۔ یہ جو اب کتے کا کاٹ کھانا ہے یہ تو ایک بہانہ بنا اس موت کا۔ وہ اگر اس سے نہ مرتا تو اسے ایڈز ہو جاتا وہ ایڈز سے مر جاتا۔ اسوقت بھی سندھ کے پسماندہ گوٹھوںمیں غریب خستہ حال گھروں میں سینکڑوں بچے ایڈز سے تڑ پ رہے ہیں۔ موت ان کے خستہ حال مکانوں کی دہلیز سے لگی بیٹھی ہے اور مائوں کی جھولیوں میں سوائے آنسوئوں اور بے بسی کے اور کچھ نہیں۔ کیا زرداریوں اور بلاولوں کے بے حس سینوں میں کہیں احساس کی دراڑ پیدا ہو گی۔ ؟ کیا غربت کی ماری اس کی ماں کی بے بسی دیکھ کر کوئی اہل درد اٹھے گا اور سندھ کی بے بس غریب مائوں کے دکھ درد کا مداوا کرے گا، جن کی گودیوںمیں ایڈز کے بچے تڑپ رہے ہیں۔ کرپشن میں لتھڑے ہوئے ان ہوس زدہ اقتدار کے پجاریوں سے کسی کو کیا امید ہو سکتی ہے۔ علاج نہ ہونے اور دوا نہ ملنے سے مرنے والے ہر بچے ہر مریض کا خون ان کی گردن پر ہے۔ اس دنیا میں نہیں تو روز قیامت وہ اس کا حساب ضرور دیں گے۔ میر حسن ابڑو کی درد ناک موت سے اور کچھ ہو نہ ہو یہ ضرور ہوا ہے کہ پہلی بار آوارہ کتوں سے پیدا ہونے والے سنگین مسائل کا تذکرہ میڈیا میں ہو رہاہے اور نہایت ہوشربا قسم کے حقائق سامنے آ رہے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں آوارہ جنگلی کتے گلیوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ بیشتر ان میں سے ربیز وائرس کے کیئریر ہیں کسی انسان کو کاٹ لیں تو اس کا علاج جو ویکسین ہے وہ ہمارے ہاں دستیاب ہی نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 10لاکھ ریبیز ویکیسن کی ڈوز کی ضرورت ہے یہ مہنگی ویکسین ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس کی شدید کمی ہے۔ شرمناک بات یہ ہے کہ بھارت اگر یہ ویکسین بنا رہا ہے تو ہم پاکستانی کیوں اس قابل نہیں۔ ہمیں یہ ویکسین بھارت سے خریدنا پڑتی ہے۔ حالیہ کشیدگی کی وجہ سے ویکسین کی تازہ کھیپ امپورٹ نہیں ہو سکی۔ خدانخواستہ کتا کاٹ جائے تو فوری طور پر اس ویکسین کی ضرورت پڑتی ہے۔ دیر ہو جائے تو پھر مریض ناقابل علاج ہو جاتا ہے۔ یہی میر حسن کے ساتھ ہوا۔ بدقسمت بچے کو فوری طور پرویکسین نہیں مل سکی اور پھر بہت دیر ہو چکی تھی۔ ویکسین مل بھی جاتی تو بے اثر رہتی۔ موت اپنا وار کر چکی تھی۔ ماں تو پھر ماں ہے ان حقائق سے بے خبر اپنے تڑپتے ہوئے لخت جگر کی دوا کے لئے دوائیاں ڈالتی رہی اور وہ اس کی گودمیں تڑپتا ہوا موت کے اس پار اتر گیا۔میر حسن ابڑو کا نوحہ۔ منفرد شاعر قمر رضا شہزاد نے ایسا لکھا کہ درد کو لفظوں میں پرو دیا۔ میں سو گیا۔ مجھے بھی نیند آ گئی کئی دنوں کے جاگنے سے کتنا بے قرار تھا میرے لہو میں آگ سی بھڑک رہی تھی میری جان میرے جسم میں پھڑک رہی تھی درد تھا۔ بلا کا درد تھا! میں چیخ چیخ کر بلا رہا تھا شہر کو مگر مری صدا مرے گلے میں رہ گئی میں اپنی ماں کی گودمیں تڑپ تڑپ کے سو گیا کسی کے زہر سے میں خود بھی زہر ہو گیا مگر یہ درد میری ماں کے آنسوئوں میں جم گیا میر حسن ابڑو۔ میرے بچے۔ اچھا ہی ہوا کہ تم ابدی نیند سو گئے۔ تم اب سکون میں ہو۔ جیتے رہتے تو کرپشن‘ ناانصافی اور غربت کی اس بستی میں ساری عمر تڑپتے رہتے۔!ْ!