آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پارلیمنٹ کے ان کیمرہ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ترقی اور کامیابی کے لیے ہمیں نئے اور پرانے پاکستان کی بحث چھوڑ کر "ہمارے پاکستان" کی بات کر نی چاہیے میرا گمان راسخ ہے کہ جنرل عاصم نے جب یہ بات کی ہو گی تو ان کے ذہن کے کسی کونے میں قائد اعظم اور علامہ اقبال کا تصور ریاست ضرور ہو گا ۔اگر پاکستان کو قائد اور اقبال کے تصورات کے مطابق چلایا جاتا ہمارے حکمران طبقے کو پاکستان کی تشکیل کے حقیقی مقا صد سے آگہی ہوتی اور پاکستان کے عوام کے ذہنوں کی آبیاری قائد اعظم اور اقبال کے افکار کی روشنی میں کی جا تی تو آج اس ملک میں نئے اور پرانے پاکستان کی کبھی بات نہ کی جاتی اور ہمیشہ ہم سب کے اپنے پاکستان کی بات کی جاتی، یعنی ایک جدید، ترقی یافتہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور فلا حی معاشرہ، جسکا خواب اقبال نے دیکھا اور قائد اعظم نے اس کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ قائد نے پاکستان کے نظر یاتی، سیاسی ،معاشی اور سماجی خدوخال کو ایسا رخ دے دیا تھا جس پر عمل پیرا ہو کر ہم ایک خوشحال قوم بن جاتے مگر بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے تحریک پاکستان کے مقاصد کے حصول کیلئے کوئی سنجیدہ پیش قدمی نہیں کی ہماری قسمتوں کے فیصلے کرنے والے آج تک نہیں سمجھ سکے کہ دو قومی نظریے کے حقیقی مقاصد کیا تھے اور یہ ریاست کی نظریاتی اساس اور قومی یکجہتی کے لئے کس قدر ناگزیر ہیں ۔ہم آج تک قائد اعظم کی 11 اگست 1947 والی تقریر کے تقاضوں پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکے ہیں ہمارے دانشور اس الجھن کو حل نہیں کر سکے کہ پاکستان ایک نظر یا تی ریاست ہے یا ایک قومی ریاست۔ قائد اعظم نے تحریک پاکستان کے دوران متعدد مواقع پر اس عزم کا اعادہ کیا کہ ہم نئے ملک کی تعمیر اور دستور سازی میں قرآن اور اسلام سے رہنمائی حاصل کریں گے مگر بدقسمتی سے ہم آج تک پاکستان کی حیات اجتماعی کو جدید اسلامی تعلیمات کے مطابق تشکیل دینے میں کامیاب نہیں ہونے ہیں ہمارے مفاد پرست حکمران اور بکاؤ دانشور طبقہ یہ ادراک ہی نہیں رکھتا کہ معاصر دنیا میں ایک پسماندہ ملک کی حیات اجتماعی کی تشکیل اسلام کے اصولوں کے مطابق کس طرح کی جا سکتی ہے ہمارے مختلف فرقوں کے علماء "مسلمان" کی ایک متفقہ تعریف پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جدید تقاضوں کے مطابق اسلام میں اجتہاد، اجماع اور قیاس کا اطلاق نہیں کر پائے ہیں ہم یہ فیصلہ نہیں کر پائے ہیں کہ پارلیمنٹ اسلامی قوانین کی کس حد تک تعبیر کر سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب اسلام کی تعلیمات کی تشریح مختلف فرقے اپنے ذہنی اپچ کے مطابق کریںگے تو پھر کیسے اسلام کو سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرنے سے روکا جا سکتا ہے کبھی نظام مصطفی کے نام پر تحریک چلائی جاتی ہے تو کبھی اسلامی سوشلزم اور ریاست مدینہ کے نام پر قوم کے مذہبی جذبات سے کھیلا جاتا ہے آج جب ہم اقبال کی شاعری پر تو سر دھنیں مگر ان کی کتاب’ اسلامی فکر کی تشکیل جدید‘ سے نوجوان نسل کو دور رکھا تو پھر ایک طرف فرقوں میں تقسیم مسلمان تو دوسری طرف تکفیر یت کے زیر اثر مذہبی انتہا پسندی نے ہمارے ملک کے سماجی فیبرک کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے ۔ضیاء الحق کے 11 سالہ دور میں اسلامی احکامات کو تھوڑا بہت نافذ کرنے کی کوشش کی گئی مگر چونکہ ان کا فہم اسلام بہت محدود تھا نیز انہوں نے اسلام کا نعرہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے استعمال کیا جبکہ ہمارے کس بھی حکمران نے اسلامی تعلیمات کو جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سیاست، معیشت، قانون اور انصاف کی حکمرانی اور عدل اجتماعی اور معاشی اور سماجی مساوات قائم کرنے کے حوالے سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جو قائد اعظم کے وژن کے مطابق ہو پاکستان ایک جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آیا قائد اعظم نے کہا تھا کہ جمہوریت ہمارے خون میں ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کے قا ئم کردہ ملک میں ارفع جمہوری روایات کو فروغ دیا جاتا اور تمام جمہوری ادارے عمدگی سے پروان چڑھتے مگر ہوا اس کے برعکس ۔قیام پاکستان کے پہلے 23 سال ایک دفعہ بھی قومی انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منعقد نہ ہو ئے محلاتی سازشوں ک ذریعے حکومتیں بنتی اور بگڑ تی رہیں نو سال آئین بھی نہ بن سکا اور جب بنا تو ا ڑھا ئی سال کے عرصے میں منسوخ کر دیا گیا ۔ایوب ،ضیاء ، یحییٰ اور مشرف کے فوجی آمریت اور آئین کو بین کرنے سے جہاں ملک دو لخت ہوا وہیں دنیا نے یہ طرفہ تماشا دیکھا کہ قائد اعظم کے ملک میں جنگل کے قانون کے تابع حکومتیں قائم ہوتی رہیں اور جسٹس منیر سے لیکر جسٹس ارشاد حسن تک نظر یہ ضرورت کے تحت آمروں کی غیر آئینی حکومتوں کو قانونی جواز ملتا رہا اور جب ملک معاشی طور پر کنگال ہو گیا تو پھر طالع آزما جرنیلوں اور ججوں نے گزرے چند برسوں میں جمہوری حکومتوں کو ہائبرڈ نظام کے تحت نکیل ڈالے رکھی، ان نا مساعد اور بحرانی کیفیت میں سپہ سالار کا یہ کہنا کہ طاقت اور اختیار کا کا محور عوام ہیں اور ئین کی رو سے یہ اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہو گا چلی ،خوش آئند ہے۔ اور جسٹس قاضی فائز عیسی نے بھی آئین کی با لا دستی اور پاسداری کے لئے اپنے عہد کو بار بار دہرایا ہے تو ان شا اللہ ایک دن ضرور ایسا آئے گا جب یہ ملک قائد اعظم کے وضع کردہ اصولوں کی بنیاد پر پر ترقی اور کامرانی کی منازل طے کر ے گا اور تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود وقیود میں رہتے ہوئے اپنا تعمیری کردار ادا کریں گے اور کسی بھی طاقتور فرد کو اس ملک کو اپنی مذموم خواہشات کے تابع نہیں چلانے دیں۔