وہ بام عزو شرف سے گزر گیا ہوتا اگر وہ سچا نہ ہوتا تو ڈر گیا ہوتا یہ زہر اصل میں سقراط کو تھا آب حیات اگر وہ زہر نہ پیتا تو مر گیا ہوتا کسی کے دم سے عزت یاب ہونے والے اس بات کو نہیں سمجھیں گے۔اس بات کو وہی جانے گا، جو جان سے گزرجانے کا حوصلہ رکھتا ہو، روشنی بن کے اندھیروں میں اتر جاتے ہیں ہم وہی لوگ ہیں جو جاں سے گزر جاتے ہیں کبھی ہم نے عمران خان کے لئے کہا تھا سچ کی آواز میں آواز ملائو آئو شہر لب بستہ میں اک حشر اٹھائو آئو۔ صرف یہ کہا ہی نہیں تھا ہم نے قدم سے قدم بھی ملایا تھا اور خاندان سمیت ووٹ بھی دیا تھا مگر ہوا کیا؟ یہ کہانی پھر سہی۔ بات یہ ہے کہ ہر پاکستانی اپنے ملک کا خیر خواہ ہے۔ وہ یہاں امن و آشتی چاہتا ہے، خوشحالی مانگتا ہے اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ چاہتا ہے، اب تک کا منظر نامہ بھی سب کے سامنے ہے کہ ریشم کے دھاگے میں ایسے گنجل پڑے ہیں کہ سرا غائب ہو چکا ہے۔ ایک مرتبہ پھر آپشن کوئی نظر نہیں آ رہا، اگرچہ کراچی کی سطح پر امید کی ایک کرن ضرور نظر آتی ہے کہ جماعت اسلامی نے تمام تر بندشوں اور رکاوٹوں کے باوجود اپنا وجود منوایا ہے ،محسوس ایسا ہوتا ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی سب سے زیادہ اثرپزیری رکھتی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن اور ان کے ساتھیوں نے کراچی میں کام کیا ہے۔پیپلز پارٹی نے حکومتی ہتھکنڈے استعمال کئے پھر بھی جماعت اسلامی دوسرے نمبر پر نظر آ رہی ہے، بہت سی جگہ پر تاخیری حربوں سے نتائج تبدیل کرنے کے الزامات لگ رہے ہیں، ایک نکتہ جو خاص ہے اور توجہ دینے کے قابل ہے کہ بات اب تعمیر کی طرف بڑھ رہی ہے، لوگ جو پہلے ایم کیو ایم کا دور دیکھ چکے اور پھر پیپلز پارٹی کا اب ایک اور طرف دیکھ رہے ہیں کہ جن میں خالص مذہبی رواداری‘ ایثار اور قربانی کا جذبہ ہے، ایسے ہی جون ایلیا کا شعر یاد آ گیا: بولتے کیوں نہیں مرے حق میں آبلے پڑ گئے زبان میں کیا اور کبھی اس غزل کا ایک شعر ہم تحریف سے پڑھا کرتے تھے۔’’ان کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں‘ ایسے ہوتا ہے خاندان میں کیا‘‘ وہ بڑا خوفناک وقت تھا سوچیں تو روح کانپ جاتی ہے جلتے ہوئے زندہ مزدور۔ اور نامعلوم افراد کا گھنائونا کھیل۔ ترس آتا تھا شہر کراچی پر جسے میں حسن بے شمار کہا کرتا ہوں۔تب کا مصرع ہے اے حسن بے شمار کیا ہوا تجھے۔لگتا ہے عروس البلاد کی روشنیاں واپس آ کر رہیں گی۔وہ ایک دفعہ پھر اکٹھے ہوئے تھے یا اکٹھے کئے گئے تھے۔اگر وہ لوگوں کے تیور بھانپ گئے تھے اس لئے خیرت جانی کہ بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ ہی کر دیا۔ ’’کعبہ کس منہ سے جائو گے غالب۔شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘ عمران خاں بظاہر مضبوط ہوتے جا رہے ہیں کہ پرویز الٰہی نے بھی خود سپردگی ظاہر کر دی ہے کہ ان کے پاس تو سارے آپشنز ہی ختم ہو گئے ،انہوں نے ق لیگ کو پی ٹی آئی میں ضم کرنے کی بات کی ہے۔ مگر دوسری طرف چودھری شجاعت حسین نے پرویز الٰہی کو بنیادی رکنیت سے محروم کر دیا ہے۔بطور صدر ق لیگ شاید یہ ان کا استحقاق ہے وہ پرویز الٰہی کو شوکاز نوٹس بھی بھیج چکے ہیں۔بہرحال پرویز الٰہی عملی طور پر اپنا ایک حلقہ اثر رکھتے ہیں جو اب عمران خاں کے کام آئے گا۔ دیکھتے ہیں کہ سراج الحق کیا فیصلہ کرتے ہیں دیکھا جائے تو کراچی کو دیکھتے ہوئے جماعت اسلامی کو کامیابی تو حاصل ہوئی ہے وہ ایک قوت تو ہیں اور اسی لئے سراج الحق صاحب کی کوشش ہے کہ پاکستانی قوم انہیں عران خاں کے بعد چوتھا آپشن قبول کرے، سچ یہی ہے کہ جماعت اسلامی اپنی ہسٹری شیٹ میں بہتر جماعت نظر آتی ہے۔ان کو جب بھی کوئی حکومتی ذمہ داری ملی ہے، ان پر کوئی ایک بھی کرپشن کیس نہیں۔پھر یہ تو آپ سب جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اگر صادق امین کا فیصلہ کرنے لگیں تو پھر صرف سراج الحق ہی بچیں گے یعنی اکسٹھ باسٹھ شک کے بالاتر۔سچ یہی ہے کہ پی ڈی ایم نے بالعموم اور ن لیگ نے بالخصوص رجیم چینج سے فائدہ اٹھایا۔ ن لیگ کے رہنمائوں پر بننے والے سارے کیس جو ختم ہوئے ہیں، وہ اس قیمت کے عوض ہوئے ہیں جو اس قوم نے ادا کی ہے۔اب نواز شریف واپسی کا کہہ رہے ہیں یہ بھی صرف سنا ہی ہے مگر اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ویسے ان کی گنجائش شہباز شریف نے چھوڑی بھی نہیں انتخاب ناگزیر ہو چکے۔بڑے عرصے بعد اپنے دوست مرحوم حسین شاد کا ایک پنجابی شعر یاد آ گیا: ڈر گئی ایں ویکھ کے زنجیر نوں چاء بڑا سی جھانجراں چھینکان دا