سینئر سیاستدان اور مسلم لیگ ن کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے ملتان پریس کلب میں بھرپور پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ایک سلیکٹڈ کے بعد دوسرے سلیکٹڈ کو لانے کی تیاری ہو رہی ہے ۔ اسمبلی کو مدت پوری کرنے دی جائے ، ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں کہ عمران خان کو چلنے دیا جائے ۔‘‘ دوسرے سلیکٹڈ کے بارے میں مخدوم جاوید ہاشمی کا اشارہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی طرف ہے ۔ یہ بھی مکافاتِ عمل ہے کہ مخدوم جاوید ہاشمی نے جب تحریک انصاف چھوڑی تو وہ وہ عمران خان کے بد ترین مخالف چلے آ رہے تھے ، اور کہتے آ رہے تھے کہ عمران خان سلیکٹڈ ہیں ، ان کو حکومت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ، ذرائع بتاتے ہیں کہ میاں شہباز شریف کو لندن سے ان ہاؤس تبدیلی کیلئے بلایا گیا ، اس وقت مخدوم جاوید ہاشمی نے یہ نہ کہا کہ’’ عمران خان کو چلنے دیا جائے‘‘ میاں شہبازشریف کا معاملہ آگے نہ بڑھا تو متبادل کے طور پر مخدوم شاہ محمود قریشی کی خبریں آنے لگیں ، جس پر مخدوم جاوید ہاشمی کو ہنگامی پریس کانفرنس کر کے یہ کہنا پڑا کہ ایک سلیکٹڈ کے بعد دوسرے سلیکٹڈ کو نہ لایا جائے اور عمران خان کو چلنے دیا جائے ۔ سب جانتے ہیں کہ اس کی وجہ مقامی طور پر مخدوم شاہ محمود قریشی اور مخدوم جاوید ہاشمی کی قدیم سیاسی مخاصمت ہے ، دیکھا جائے تو بذاتِ خود یہ بات غیر اصولی ہے کہ اگر مقتدر قوتیں مخدوم شاہ محمود قریشی کی بجائے میاں نواز شریف یا میاں شہباز شریف کو لیں تو مخدوم جاوید ہاشمی بھنگڑے ڈالیں گے اور عمران خان کے جانے پر مٹھائی تقسیم کریں گے ۔ جبکہ ان کے سیاسی حریف مخدوم شاہ محمود قریشی کی بات آئے تو وہ ہاتھ جوڑ کر کہتے نظر آتے ہیں کہ خدا کے لئے عمران خان کو چلنے دیں ، جبکہ بات سلیکٹڈ کی ہے تو پہلے دوسرے کی بات غلط ہے ، جمہوری لحاظ سے کسی سلیکٹڈ کو حکومت کرنے کا حق نہیں ، عمر کے اس حصے میں مخدوم جاوید ہاشمی کو میرٹ پر بات کرنی چاہئے ۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ آئندہ پانچ سالوں میں بلوچستان کا نقشہ تبدیل ہوتے دیکھ رہا ہوں ، پاکستان دشمن قوتیں سازش کر رہی ہیں کہ بلوچستان کو الگ کیا جائے ۔ مخدوم جاوید ہاشمی کا یہ کہنا بجا اور درست ہے کہ افغانستان کی معرفت بھارت نے بلوچستان میں سازشوں کا جال بچھایا ہوا ہے ، سی آئی اے اور موساد کی سرپرستی بھی را کو حاصل ہے ،ہماری پاک فوج ملک دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے کمربستہ ہے اور انشاء اللہ بلوچستان کی عوام کے تعاون سے غیر ملکی طاقتیں اپنے عزائم میں ناکام ہونگی ، لیکن اس موقع پر میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بلوچستان کے حالات آج سے نہیں بلکہ قیام پاکستان سے لیکر مسلسل خراب چلے آ رہے ہیں، بھٹو ، ضیاء الحق اور مشرف دور میں فوجی آپریشن ہوتے رہے ہیں ۔ یہ بھی ہوا کہ پچھلی دو حکومتوں کے دوران بلوچستان میں سرائیکی مزدور پنجابی کے نام پر قتل ہوتے رہے ، اس کے خلاف ہم نے احتجاج کیا ۔ ریلیاں نکالیں اور جلسے کئے مگر مخدوم جاوید ہاشمی کو قاتلوں کی مذمت اور مقتولوں کی تعزیت کیلئے ایک حرف کہنے کی بھی توفیق نہ ہوئی ۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ جتنے بے گناہ سرائیکی مزدور مارے گئے ، وہ بلوچستان کے خلاف اسی عالمی سازش کی بھینٹ چڑھے، جس کا ذکر مخدوم جاوید ہاشمی کر رہے ہیں ۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنی پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ جنوبی پنجاب کا سول سیکرٹریٹ ملتان میں بنایا جائے ۔ مخدوم جاوید ہاشمی کے مقابلے میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے سید علی گیلانی جو پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں ، نے بجٹ اجلاس میں دھواں دھار تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سول سیکرٹریٹ کو مسترد کرتے ہیں ، تحریک انصاف نے سو دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا ، آج چھ سو سے زیادہ دن ہو چکے ہیں ، حکمران صرف سول سیکرٹریٹ پر ٹرخانا چاہتے ہیں جبکہ سول سیکرٹریٹ کسی بھی لحاظ سے صوبے کا متبادل نہیں ہو سکتا ۔یوسف رضا گیلانی نے یہ بھی کہا کہ سرائیکی صوبہ خطے کے لوگوں کا حق ہے ۔ اس سلسلے میں پہلے بات یہ کروں گا کہ مخدوم جاوید ہاشمی کے ساتھ کئی مرتبہ اس پر بحث ہو چکی ہے کہ وسیب کے لوگ لفظ جنوبی پنجاب کو ناپسند کرتے ہیں اور لغوی اعتبار سے بھی یہ درست نہیں کہ میانوالی ، بھکر ، لیہ، خوشاب اور وسیب کے بہت سے اضلاع پنجاب کے جنوب میں نہیں آتے ۔ دوسرا یہ کہ سرکاری سطح پر یونیورسٹیوں میں ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی سرائیکی میں ہو رہی ہے نہ کہ جنوبی پنجابی ۔ اسی طرح ریڈیو ٹیلیویژن پر جو پروگرام نشر ہوتے ہیں ان کو سرائیکی کا نام دیا جاتا ہے ، جنوبی پنجابی کوئی زبان نہیں ۔ حکومت پاکستان کا ادارہ اکادمی ادبیات سرائیکی زبان کی کتب پر ایوارڈ دیتا ہے ، وہاں جنوبی پنجابی زبان کا کوئی نام و نشان نہیں ، تاریخی ، جغرافیائی اور تہذیبی اصول کے ساتھ ساتھ علمی اعتبار سے بھی جنوبی پنجاب کہنا غلط ہے ، اس سے وسیب کے لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے ، مخدوم جاوید ہاشمی اس سے اجتناب برتیں تو عمر کے اس حصے میں ان کی توقیر میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔ ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ افغان مہاجرین کے قیام میں توسیع کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اصولی طور پر وزیراعظم نے منظوری دیدی ہے ۔ افغان مہاجرین کو اپنے گھر جانا چاہئے ، پاکستان نصف صدی سے افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے ۔ اس کے بدلے میں پاکستان کو جو صلہ ملتا آ رہا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ ابھی کل کی بات ہے ، وزیرستان میں پاک فوج کے دو مزید نوجوان دہشت گردی میں شہید ہو چکے ہیں ۔ یہ سب کچھ احسان فراموشی کے طور پر ہو رہا ہے ۔ وزیراعظم نے بجٹ میں پسماندہ سرائیکی وسیب کی ترقی کیلئے تو فنڈ نہیں رکھا البتہ افغانستان کی ترقی کیلئے وفاقی بجٹ میں رقم رکھی گئی ۔ عمران خان کو افغانستان کے لوگ برسر اقتدار نہیں لائے ، وہ سرائیکی وسیب کے ووٹوں سے ہی مرکز اور صوبے میں بر سر اقتدار ہیں ، خیبرپختونخواہ میں بھی ڈی آئی خان اور ٹانک کے سرائیکیوں نے ووٹ دیئے، ان کو ہمدردی وسیب سے ہونی چاہئے۔ مہاجرین کو اپنے گھروں میں بھیجنا چاہئے تاکہ وہ اپنے گھر خوش رہیں اور وسیب کے لوگوں کو اپنے گھر میں سکھ کا سانس لینے کا موقع ملنا چاہئے ۔