مرد بیچارہ ساری عمر اپنی عزت کی چارپائی سر پہ ڈھوئے گوشہ ء عافیت ڈھونڈتا رہتا ہے جہاں دو گھڑی اسے بچھا کر سستا سکے۔غریب کو علم ہی نہیں کہ ایسا نادر موقع ہاتھ لگ بھی جائے تب بھی سکون اس کے نصیب میں نہیں ہے۔ ہمارے سماج نے اس چارپائی میں ابہام، اوہام، دشنام اور الزام کے یہ موٹے موٹے کھٹمل ڈال رکھے ہیں جو اس کا خون چوستے اور اسے بے کل کرتے رہیں گے۔ کردار کشی بدترین انتقام ہے۔ اس الزام کا شکارکسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ مرد کی مجبوری یہ ہے کہ اسے ہر حال میں منہ دکھانا ہے ۔ اسے جینا ہی نہیں پالنا پوسنا بھی ہے۔جھک مار کے وہ ڈھیٹ ہوجاتا ہے کہ چلو ایسا ہے تو پھر ایسا ہی سہی۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو عجیب طور پہ مردوں کا معاشرہ کہلاتا ہے، مرد ہی بائی ڈیفالٹ بدکردار ہوتا ہے۔ اس کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔اسے جب چاہے ذلیل کیا جاسکتا ہے اور اس پہ ہر ناگفتہ بہ الزام لگانے کی سہولت و رعایت اس سوسائٹی کو حاصل ہوتی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ مرد میں کردار کی کمزوری نہیں ہوتی اور ایسا نہیں ہے کہ کردار کی کمزوری عورت میں بھی نہیں ہوتی۔ عورت کو لیکن بے شمار رعایتیں حاصل ہیں۔ اسے پیدائشی عزت اور عظمت حاصل ہے ۔وہ پیدا ہوتی ہے تو سارا خاندان اس کی عصمت و عفت کی حفاظت پہ مامور ہوجاتا ہے۔جوان ہوتی ہے تو یہ ذمہ داری کسی اور خاندان کو سونپ دی جاتی ہے۔ عورت کو عزت حاصل کرنے کے لئے محنت نہیں کرنی پڑتی۔ اسے عزت کمانی نہیں پڑتی۔مرد کو یہ زور بازو سے کمانی اور اسی سے گنوانی پڑتی ہے۔ کمانے میں ایک عمر لگ جاتی ہے۔ وہ دکھیا ساری عمر عزت کی چارپائی سر پہ رکھے گوشہ عافیت کی تلاش میں ہڑدنگا پن دکھاتا رہتا ہے۔ البتہ اسے گنوانے کے لئے بس ایک چھوٹا سا الزام درکار ہوتا ہے۔ می ٹو۔اس نے مجھے ہراساں کیا ہے۔پھر چاہے وہ شوبز کی چکا چوند میں چندھیائی آنکھوں والا علی ظفر ہو جو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے اور ظفر یاب ہو یا ایم اے او کالج کا پروفیسر محمد افضل محمود جو زندگی ، کیریئر اور جوانی پہ زہریلی گولیوں کو ترجیح دے۔کیا ہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پہ قتل ہی ہوا کریں گے؟ جی نہیں،افضل محمود نے اپنی جان دے کر ثابت کیا کہ خود کشیاں بھی ہوا کریں گی۔ جوان،تازہ پرشباب خود کشیاں۔ مرد اپنی عفت کی گواہی جان سے دے گا۔ موت سے بڑی گواہی کوئی نہیں ہوتی۔ شہادت جان کی گواہی تو ہے۔ جب آپ کے کردار پہ چاروں طرف سے انگلیاں اٹھنے لگیں تو جان دینے کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے۔ مرنے والا جھوٹ نہیں بولتا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم عورت پہ لگائے گئے الزامات پہ سو بار توبہ کرتے ہیں،پھر چاہے انہیں چسکے لے کر آگے بڑھا دیں، لیکن مرد پہ لگے الزام کو ایک لمحے میں سچ مان لیتے ہیں کیونکہ ہماری سوسائٹی نے ہمیں سکھایا ہے کہ مرد ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ ایسا نہ ہو تو مرد ہی کیوں ہو۔یہی سوسائٹی مرد کو ہلا شیری دیتی ہے کہ وہ ایسا ہی بنے،تاکہ اس کے بنائے کلیشے اور رسم و رواج فروغ پاتے رہیں۔اسے غیرت کا سبق اس لئے پڑھایا جاتا ہے کہ وہ اپنی عورت کو قابو میں رکھ سکے، اس لئے نہیں کہ وہ غیر عورت کی حفاظت کرسکے۔ افضل محمود پہ لگے انتہائی معمولی نوعیت کے الزامات پہ سب سے پہلے یقین کرنے والی عورت، اس کی بیوی تھی جس کی پرورش اسی ذہنیت والے سماج نے کی۔مرد ایسا ہی ہوتا ہے۔ شوہر بھروسے کے قابل نہیں ہوتا۔وہ ادھر ادھر منہ مارے گا ضرور،تم ذرا ہوشیار رہنا۔اتنی ہوشیار کہ اس پہ لگے الزامات پہ فورا یقین کرلینا۔پھر چاہے وہ اپنی عصمت کی گواہی زہریلی گولیاں پھانک کر دے۔بڑی عجیب بات ہے۔ ساری زندگی مخلوط تعلیمی اداروں سے اکتسا ب کیا۔ اسکول کالج تک تو فیصلے میرٹ پہ ہوتے رہے۔ جامعہ نے آنکھیں کھول دیں۔ تقریبا ہر شعبے کے آخری بلند سرے پہ ایک مرد بزرگ و دانا عفیفاوں کے جلو میں مستقبل کے فیصلے کررہا ہوتا تھا۔ ایک شعبے کے چئیر پرسن نے اپنی چہیتی طالبہ کو شریک چئیرپرسن بنا رکھا تھا۔ دونوں اکثر ایک ہی چئیر پہ پائے جاتے تھے۔ کئی بار ان گناہگار آنکھوں نے اول الذکر کے گالوں پہ آخرالذکر کی انگلیوں کو ستار بجاتے دیکھا۔ آخر الذکر یہی شغل ان کی ٹائی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے تھی جو غالبا اسی شغل کے باعث اتنی بدرنگ ہوچکی تھی کہ ہر سوٹ کے ساتھ پہنی جاسکتی تھی اور پہنی جاتی تھی۔موصوف کی ٹائی کے ساتھ کھلواڑ کرنے والی ہر بار مستحقین کو منہ چڑاتی پوزیشن لے اڑتی تھی۔ مقالے لکھنے اور اسائنمنٹ بنانے والے ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے رہ جاتے تھے۔ تاریخ پاکستان کے ایک کہنہ سال استاد جو محاورتا نہیں حقیقتا ہاتھ میں جنبش نہیں ہاتھوں میں تو د م ہے والی منزل سے بھی آگے نکل چکے تھے، یعنی اب آنکھ میں بھی دم نہ رہا تھا، لیکن ان کے حوصلے کو سلام ہے کہ وہ ان مخدوش حالات میں بھی ستاروں پہ کمند ڈالنا عین فرض منصبی سمجھتے تھے۔ ان سے بھی زیادہ وہ عفیفائیں کسی تمغہ امتیاز کی مستحق معلوم ہوتی تھیں جو محض چند نمبروں، اچھی پوزیشن یا لیکچرر شپ کے لالچ میں اس لزرہ بر اندام خاک کے پتلے میں روح پھونک کر قم بااذن اللہ کی ناکام پریکٹس کیا کرتی تھیں۔اس کوشش میں کچھ ہو نہ ہو، بدنامی ضرور ہوجاتی تھی۔کبھی کبھی شادی بھی۔ تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے اور ایک ہاتھ سربراہ شعبہ کا ہو تو کیا ہی خوب بجتی ہے لیکن بدنام بھی وہی ہوتا ہے۔بو الہوس، گرگ صفت،بدکردار اور مرد۔عفیفہ مع ڈگری اور پوزیشن صاف بچ نکلتی ہے اور اکثر اپنے ہم عمر کلاس فیلو کا ہاتھ تھام کر نکلتی ہے تاکہ باقی زندگی ہنسی خوشی گزار سکے۔اسے کوئی برے الفاظ میں یاد تک نہیں کرتا کیونکہ وہ نظروں سے اوجھل ہوچکی ہوتی ہے اور یہاں وہ مرد کا بچہ عفیفاوں کی تازہ کھیپ سے نبرد آزما ہونے کو دل و جان سے تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ یہ کہانی دہرائی جاتی ہے اور دہرائی جاتی رہے گی۔پروفیسر محمد افضل خوامخواہ جان سے گیا۔ یہ کوئی جان دینے والی بات تھی۔اس نے اپنے پیش رووں سے کچھ نہیں سیکھا۔ کاش وہ یہی سیکھ لیتا کہ دنیا میں ایک اصول طلب اور رسد کا اصول ہے اور کچھ لے کر کچھ دیا کیسے جاتا ہے کہ سب خوش رہیں۔طالب و مطلوب بھی اور تماش بین بھی۔ کاش وہ سیکھ لیتا کہ مرد کی کوئی عزت نہیں ہوتی اور ایسی سناری چوٹیں اس لوہار کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتیں بلکہ اسے مرغوں کے غول میں شتر مرغ بناکر رکھتی ہیں جہاں وہ مردانگی کے زعم میں سینہ پھلائے دلکی چال چل سکتا ہے۔کاش وہ سیکھ لیتا کہ عورت ہو یا مرد، فائدے میں وہی ہے جو عزت کو پونجی سمجھتا ہے۔ وہ پونجی نہیں جو سینے سے لگائے عمر گزار دی جاتی ہے،بلکہ وہ جسے درست وقت پہ اور درست موقع پہ انویسٹ کیا جاتا ہے۔کاش وہ جان نہ دیتا بلکہ جان لیتا۔