کسی بھی سپاہی کے لیے میدان جنگ چھوڑنے کا فیصلہ آسان نہیں ہوسکتا۔ ایک عمر کی ریاضت، لگاو اور وابستگی کا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ سپاہی کی ساری زندگی اسی خواہش میں گزرتی ہے کہ اسے کب اپنے ملک کے دفاع کا موقع ملے۔ ہمارے جوان روز شہادت قبول کررہے ہیں۔ کیا ہمارا وہ سپاہی جو بلوچستان میں ڈیوٹی دیتا ہے اسے نہیں پتا کہ دشمن پوری تیاری کے ساتھ گھات میں بیٹھا ہے۔ وہ روز اپنے ساتھیوں کی میت ان کے ورثا کے حوالے کرتاہے۔ وہ روز شہدا کے قبرستان میں ایک اور قبر کا اضافہ ہوتا دیکھتا ہے لیکن پیچھے نہیں ہٹتا۔ اسے کوئی عذر اپنے ملک کے دفاع سے روک نہیں سکتا۔ وہ اکیلا بھی ایک فوج ہے اور پوری بٹالین بھی، ہمت اور جان نثاری سے لبریز۔ یہ دلوں کے سودے ہیں اسی لیے تو اس پاکیزہ شعبے کی اتنی بڑی قیمت ہے کہ شہید ایک سکینڈ بھی برزخی زندگی نہیں گزارے گا۔ وہ سرخ قالین سے ہوتا ہوا سیدھا جنت میں اتر جائے گا جہاں وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ یہ زندگی اس موت کی مرہون منت ہے جس کی پروا کئے بغیر ایک سپاہی اپنے ملک، اس کی غیرت، اس کے مال و حرمت اور اسکی دنیا میں قدر و منزلت کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں۔ اگر یہ حقیر کام ہوتا، اگر اس راستے میں آسانیاں ہوتیں تو افغانی فوج اتنی جلدی پسپائی اختیار نہ کرتی۔ ہارنا جرم نہیں ، بغیر لڑے ہارنا جرم ہے۔ افغان فوج نے نہ تو لڑائی کی کوشش کی اور نہ ہی اپنے دفاع کے لیے کھڑے ہونے کی ہمت کر پائی۔ کچھ بھاگ نکلے اور کچھ نے ہتھیار ڈال دئیے۔ وہ تو بھلا ہو طالبان کا کہ انہوں نے خون خرابے کی پالیسی ترک کر رکھی تھی وگرنہ اس صورت حال میں افغانستان میں ایسا خون بہتا جو کئی دہائیاں اس کی بنیادوں سے دھویا نہ جا سکتا۔ امریکہ کو فخر تھا کہ اس نے ساڑھے تین لاکھ کی ایک ایسی فوج کھڑی کی ہے جو ہر صورت افغانستان کا دفاع کرنے میں کامیاب ہو گی۔ جب نیٹو نے افغانستان کی جنگ سے رخصت لی تو امریکہ نے یہ کہہ کر اپنا رخت سفر باندھنے سے انکار کر دیا کہ افغانستان کو بغیر فوجی کمان کے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ یوں ایک قلیل تعداد ان امریکی سپاہیوں کی پیچھے چھوڑی گئی جن کا کام افغان فوج کو تیار کرنا تھا۔ امریکہ کا ملٹری اسکالر Jasen Castilloاپنی کتاب،Endurance and War: The National Sources of Military Cohesion جو 2014 میں شائع ہوئی تھی ، میں طالبان اور افغان نیشنل فورس کو انکی کارکردگی، بہادری، ہم آہنگی، ارادے میں پختگی اور میدان جنگ میں استقامت جیسی خوبیوں کی بنا پر دو دھڑوں میں تقسیم کیا ہے۔ Castillo نے طالبان کو Messianic Militaryیعنی مسیحانہ ملٹری اور افغان فوج کوApathatic military یعنی مردہ دل ملٹری کے القاب دیے ہیں۔ مصنف کہتا ہے کہ طالبان فوج افغان فوج کے مقابلے میں کئی درجے مستحکم، ارادوں کی پکی اور اپنے مشن سے وفا دار ہے۔ جبکہ افغان فوج کی کم ہمتی,خلفشاری، اپنے مشن سے لاتعلقی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہر روز طالبان کسی نہ کسی چیک پوسٹ پر با آسانی حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ اسی طرح 2015 میں آرمی کی 215th کور کوآسانی سے تقریبا ملیا میٹ کر دیا گیا ۔جبکہ 2018 میں غزنی کا دفاعی نظام بغیر تردد کے مفلوج بنا دیا گیا۔ Castillo مزید لکھتا ہے کہ تقریبا 30 فیصدافغان فوج کے سپاہی ہر سال یا تو بھاگ جاتے ہیں یا ڈیوٹی سے غیر حاضر رہتے ہیں۔ اس کم ہمتی اور لا تعلقی کی سب سے بڑی وجہ Castillo کے مطابق لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ جس طرح اشرف غنی ملک کو بیچ منجھدار چھوڑکے بھاگ نکلا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قیادت کا کس قدر گہرا فقدان رہا ہوگا افغانستان میں۔ سپاہی کوئی فرمانبردار نوکر نہیں جو فقط حکم کی پیروی کرے۔ سپاہی اپنے لیڈر کی فکر، سوچ اور مزاج کا ترجمان ہوتا ہے۔ آرمی کی چین آف کمانڈ ہی اس کی اصل طاقت ہے جہاں آرڈر اور ان کی تکمیل خود بخود زینے طے کرتی ایک سے دوسرے تک منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اس تمام امر میں تربیت اور ذہنی یکسوئی اہم عوامل ہیں۔ افغانستان کی جنگ بذات خود ایک معمہ تھی۔ بیس سال تک جس جنگ کو چلایا گیا وہ تھی کس کی؟ امریکہ کی؟ افغان حکومت کی؟ بھارت کی ؟ معلوم ہوتا ہے کہ افغان سپاہی کو بیک وقت ان تمام جنگوں میں جھونکاگیا تھا۔ ایک طرف امریکہ کی پالیسی جس نے افغان حکومت کو کرپٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دوسری طرف افغانی لیڈر شپ جس کی مہارت محلات سے نکل کر کبھی شہروں دیہاتوں اور قصبوں تک نہیں گئی۔ تیسری طرف بھارت کی پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش کا پندار۔ اور چوتھی اکائی ان دہشت گردوں کا ٹولہ جو پاکستان، چین، ازبکستان، عراق وغیرہ سے نکل کر افغانستان میں پناہ گزیں تھے اور کبھی سی آئی اے، کبھی را اور کبھی موساد کی تجوریوں سے بہتے پیسے سے ااسودہ ہو کر اپنے ہی ملکوں پر حملہ کرنے کی سکیمیں بناتے۔ اس منظر نامے میں افغان فوج کا یکسو رہنا کیسے ممکن تھا۔ دشمن تو ہر جگہ موجود تھا۔ افغان فوج کی تو اپنی لیڈرشپ مکمل طور پر کرپشن سے آلودہ پڑی تھی۔ سننے میں آیا ہے کہ طالبان کے ساتھ لڑائی میں افغان فوج کو کمک پہنچانا تو دور کی بات انہیں کسی قسم کی کوئی عسکری سہولیات، آلات دیے بغیر میدان میں اتار دیا گیا۔ فاقوں کی نوبت آ گئی۔ایسے میں امریکہ بھاگ نکلا۔ افغانی لیڈر بھاگ نکلے۔ بھارت بھاگ نکلا۔ دہشت گرد گروہ بلوں میں چھپ گئے۔ نہ مقصد نہ حوصلہ اور نہ ہی غیرت کی کوئی کمک۔ ایسے میں کون سپاہی اپنا سینہ گولی کے آگے تاننے کا حوصلہ کرتا۔ جو بھاگ سکے وہ بھاگ نکلے اور باقی افغان سپاہی ہتھیار ڈال کر طالبان کے ساتھ جا ملے۔ اگر یہ حقیقی سپاہی ہوتے تو کبھی بھی میدان جنگ سے نہ بھاگتے۔