بتایا جاتا ہے کہ پاکستانی فوج کے سربرا ہ جنرل یحییٰ خان نے 1969 کو زمام اقتدار سنبھالنے کے بعدکر جب مارشل لانافذ کرکے آئین کی معطلی کا اعلان کیا، تو اس انتہائی قدم کی کوئی توجیح پیش نہیں کر پا رہے تھے۔ قدرت اللہ شہاب کے مطابق بیوروکریسی کے ساتھ ان کی پہلی میٹنگ میں جب ان سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے اور ان کے دست راست میجر جنرل ایس جی ایم پیر زادہ نے مارشل لا کے کئی فوائد گنوائے، جن میں نالوں کی صفائی کا حکم جاری کرنا، فنائیل چھڑکنا، مکھی مارنے کی مہم کا آغاز، دودھ دہی اور مٹھائی کی دکانوں پر جالی لگوانا وغیرہ شامل تھا۔ کچھ یہی حال اسوقت بھارت میں نریندر مودی کی حکومت کا ہے ۔پچھلے سال پانچ اگست کو وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک طرح سے آئینی سرجیکل اسٹرائیک کر کے بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کالعدم کرکے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کا تو اعلان کردیا مگر اس سے بھارت کو یا کشمیری عوام کو کیا حاصل ہوا، اس کا کوئی خاطر خواہ جواب حکومت کو سوجھ نہیں رہا ہے۔ خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے علاوہ ریاست کو تقسیم کرکے لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا گیا اور بقیہ خطے یعنی جموں اور کشمیرکو بھی براہ راست نئی دہلی کے انتظام میں دیا گیا۔ اب پورے ایک سال کے بعد اس آئینی اسٹرائیک کی افادیت اور کامیابیو ں کی جو دستاویز بھارتی حکومت نے جاری کی ہے اس کے مطابق کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے سے کھلے میں رفع حاجت کرنے کو روکنے پر صد فیصد کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اسی میں بتایا گیا ہے کہ کشمیر کو پچھلے ایک سال کے دوران صدفیصد اوپن ڈیفیکیشن فری بنایا گیا ہے۔ لیجئے ہم تو سمجھتے تھے کہ پانچ اگست کو اٹھائے گئے اقدامات کا مقصد کشمیر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانا ، سڑکوں کو سونے سے مزین کرنا اور بھارت کے تئیں عوام میں نرم گوشہ پیدا کروانا تھا ، مگر مودی حکومت نے تو اس سے بھی بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ یہ سارا کھڑاک، جس سے بھارت پاکستان اور چین کے ساتھ تقریباً حالت جنگ میں پہنچ چکا ہے، کشمیریوں کے بول براز کیلئے اٹھایا گیا تھا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی شاستری راما چندرن کا کہنا ہے کہ جب خطے میں ہر روز فوجی مقابلوں میں لوگ ہلاک ہو رہے ہوں تو رفع حاجت کرنے کیلئے کون باہر آئیگا۔ اس کے علاوہ جو باہر آنا بھی چاہتے ہیں، ان کی پیٹ پیٹ کر ایسی حالت کر دی گئی ہے کہ وہ رفع حاجت کرنے کے قابل ہی نہیں رہ گئے ہیں۔ باقی پچھلے ایک سال سے لاک ڈاون میں رہنے کے بعد جب کھانے کے لالے پڑے ہوں اور پیٹ خالی ہو تو رفع حاجت ہو تو کیسے ہو۔ شاید مودی یا امیت شاہ کو دہلی سے کولکتہ تک ٹرین میں سفر کرنا کبھی نصیب نہیں ہوا ہے۔ رات کو دہلی سے جب ٹرین چل کرعلی الصبح پٹنہ یا بہار کے دوسرے شہر گیا پہنچتی ہے تو اسٹیشن سے متصل اور دیگر علاقوں میں نظارہ قابل دیدہوتا ہے ۔ اگر کوئی خاتون کھڑکی کے پاس بیٹھی ہو تو سخت گرمی کے باوجود وہ فوراً کواڑ گرا دیتی ہے۔ لمبی لائین میں ایک خلقت خشوع و خضوع کے ساتھ پاس کی پٹڑی پر پانی کا لوٹا لئے رفع حاجت میں مصروف دکھائی دیتی ہے اور آپس میں ملکی و غیر ملکی حالات پر تبادلہ خیالات بھی کرتی رہتی ہے۔ اگر الیکشن پاس ہو تو امیدواروں ، لیڈروں اور پارٹیوں کا پرسیر حاصل تحزیہ اسی پٹڑی پر رفع حاجت کے دوران اور پوشیدہ اعضا کو سر عام دھوتے ہوئے کیا جاتا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ امیت شاہ کشمیر میں تعینات پوری نو لاکھ فوج کو بہار بھیج کر اسکو اوپن دیفیکیشن فری بناکر ریلوے پٹڑیوں کو کچھ آرام کرنے کا موقع فراہم کرواتے ۔نیز بجائے کشمیر کے بہار میں اپنے اتحادی نتیش کمار حکومت کو برخواست کرواکے اسکو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنوا کر وہاں کے عوام کے بول و براز کا انتظام کرواتی۔ پچھلے ایک سال سے کشمیریوں نے بھی مودی حکومت کا ایک طرح سے ناطقہ بند کر کے رکھ دیا ہے۔ بقول سابق بیور کریٹ شاہ فیصل پچھلے سال اگست میں جب اس آئینی اسٹرائیک سے کشمیر یوں کے جسم سے ان کے کپڑے چھین لئے گئے تو مودی حکومت کو یقین تھا کہ اس کے خلاف عوامی بغاوت برپا ہوگی اور اسکے نتیجے میں دس ہزار افراد تک ہلاک یا زخمی ہوسکتے ہیں۔ مگر کشمیریوں کی پر اسرار خامشی اور لیڈر شپ کی عدم موجودگی کے باوجود عام آدمی کا کسی بھی حکومتی ٹریک کا بائیکاٹ کرنے سے نئی دہلی میں ارباب اقتدار کا کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔ ان کو یقین تھا کہ کچھ عرصہ تک سوگ و ماتم کی کیفیت کے بعد حالات معمول پر آجائینگے۔ مگر ان کے حوارین کشمیر کی بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور پیپلز کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی شاک کی کیفیت سے باہر نہیں آپا رہے ہیں۔ ان کی پوری سیاست ہی دفعہ 370اور کشمیریوں کے تشخص کو نئی دہلی کی گزند سے بچانے پر مشتمل تھی۔ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کس منہ سے عوام کا سامنا کریں۔ کہتے ہیں کہ مظلوم کی بد دعا سے ڈرنا چاہئے۔ کورونا وائرس تو چین کے شہر ووہان سے شروع ہوامگر لاک ڈاون کا منبع کشمیر تھا۔ بھارت نے جب اگست میں کشمیر میں تاریخ کے طویل ترین لاک ڈاون کو نافذ کرادیا لوگ نان شبینہ کو محتاج ہونے لگے تو دنیا نے زبانی ہمدردی کے سوا کچھ نہیں کیا۔ ہر کشمیری کی زبان پر تھا کہ اس لاک ڈاون کا مزہ اور اقوام کو بھی چکھا دو۔ یعنی دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے۔ اس سال جنوری میں جب بھارت میں مقیم یورپی یونین کے سفیروں کی ایک ٹیم کو کشمیر لے جایا جا رہا تھا تو ان کو کور کرنے کیلئے اکنامک ٹائمزسے وابستہ سرکردہ صحافی اروند مشرا بھی سرینگر پہنچ گئے تھے۔ چونکہ وہ سیکورٹی حصار میں تھے، انہوں نے افسران سے اپنے ایک ساتھی بلال احمدڈارکے گھر جانے کی اجازت مانگی۔ بلال ماس کمیونی کیشن کی پڑھائی کے دوران ان کا ہم جماعت تھا۔ مشرا کا کہنا ہے کہ جب وہ بلال کے گھر سے باہر آکر گلی سے گذر رہا تھا کہ کھڑکی سے ایک خاتون کی آواز آئی۔ ‘‘اروند بھائی آپ بلال کے دوست ہونا،دلی والے ، میںنفیسہ عمر ہوں،بلال کی پھوپھی کی لڑکی ہوں۔‘‘ مشرا کا بیان ہے کہ نفیسہ کی باتیں سن کر وہ کئی رات سو نہ سکاتھا۔ اس لڑکی نے سوال کیا کہ کیا باہر کی دنیا میں کسی کو اندازہ ہے کہ سات مہینے سے جہاںکرفیو ہو، گھر سے نکلنا تو دور جھانکنا بھی مشکل ہو، چپے چپے پر فوج تعینات ہو،انٹر نیٹ بند،موبائل بند ،لینڈ لائن فون بند ہو، گھروں سے بچے،جوان اور بوڑھے ہزاروں بے قصوروں کی گرفتاریاں ہوئی ہوں،سارے بڑے چھوٹے لیڈر جیل میں ہوں، سکول،کالج،دفترسب بندہوں، آخر لوگ کیسے سانس لیتے ہونگے؟ مشرا کے مطابق بس پانچ منٹ میں ہی اس خاتون نے حالا ت کا ایسا نقشہ کھنچا ، جس کے الفاظ دہلی میں کئی ماہ تک اسکے ذہن پر دستک دیتے رہے۔ نفیسہ نے مزید کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ـ ’’کیسے لوگوں کے کھانے پینے کا انتظام ہوتا ہے، بیماروں کا کیا ہو رہا ہے؟ ـبس کوئی سوچنے والا نہیں ہے، آدھی سے زیادہ آبادی ڈپریشن اور ذہنی بیماریوں کی شکار ہوچکی ہے،بچے خوف زدہ ہیں،مستقبل اندھیرے میں ہے۔ـ‘‘ نفیسہ نے روتے ہوئے کہا کہ ’’ظلم وستم کی انتہا ہوچکی ہے،روشنی کی کوئی کرن نہیں ہے ،کوئی سدھ لینے والانہیں ہے، پوری دنیا خاموش تماشادیکھ رہی ہو، ہم نے سب سہہ لیا، خوب سہہ رہے ہیں۔لیکن اس وقت دل روتا ہے، تڑپتا ہے جب بھارت میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اچھا ہوا ان کے ساتھ یہی ہوناچاہیے تھا۔ پر میں نے ان لوگوں یا کسی کے لیے بھی کبھی بددعا نہیں کی، کسی کا برا نہیں چاہا بس ایک دعاکی ہے تاکہ سبھی لوگوں کواور پوری دنیاکوہمارا کچھ تو احساس ہو۔ آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہوگی ۔‘‘ اروند مشرا نے جب دعا کے بارے میں پوچھا تو اس کے بقول نفیسہ نے پھوٹ پھوٹ کرروتے ہوئے کہا ’’ اے اللہ جو ہم پر گزری ہے کسی پر نہ گزرے بس مولا تو کچھ ایسا کردینا، اتنا کردیناکہ پوری دنیاکچھ دنوں کے لیے اپنے گھروں میں قید ہوکر رہنے کو مجبور ہوجائے سب کچھ بند ہوجائے ، رک جائے!شاید دنیا کو یہ احساس ہوسکے کہ ہم کیسے جی رہے ہیں!‘‘ کورونا وائرس کے بعد جب پوری دنیا لاک ڈاون کی زد میں آگئی ، جو ابھی تک جاری ہے، مشرا کے مطابق نفیسہ کے یہ الفاظ اسکے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ ’’اروند بھائی آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہوگی۔‘‘ ’اور یہ دعا یا بددعا جلد ہی قبول ہو گئی ۔ سچ ہے کہ مظلوم کی آہ سے ڈرو ۔ظالم کو وقتی ڈھیل ضرور ملتی رہتی ہے مگر اس کی پکڑ دنیا میں ہو کر رہتی ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو فرعون کے ظلم سے تنگ آکر بددعا کی چالیس برس کے بعد اس کا اثر ظاہر ہوا۔بہرحال ظالم کویہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ اس نے ظلم کیا اور اس کی سزا نہ ملی۔اللہ کے ہاں انصاف کیلئے دیر تو ممکن ہے لیکن اندھیر نہیں ہے۔