معزز قارئین!۔ 27 دسمبر کو دُنیا بھر میں اردو اور فارسی کے نامور شاعرمرزا اسد اللہ خان غالب ؔکی 221 ویں سالگرہ منائی گئی اور سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی 11 ویں برسی ، گڑھی خدا بخش میں مرحومہ کے شوہر آصف علی زرداری اور بیٹے بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ، اُن کی پارٹیوں کے عہدیداروں اور کارکنوں نے منائی۔ مرزا غالبؔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر ؔکے درباری شاعر تھے( وزیر نہیں تھے)۔ ایک بار مرزا غالب نے بادشاہ کو لکھا کہ … سو پشت سے ہے ، پیشہ ٔ آباء ، سپہ گری ! کچھ شاعری ہی ، ذریعہ ٔ عزت نہیں مجھے! معزز قارئین!۔ ’’سپہ گری ‘‘ کے معنی ہیں ۔ فوجی کا کام ، بہادری ، جنگجو اقوام (Martial Races) کا پیشہ ۔ بہادر شاہ ظفر ؔاور مرزا غالب ؔدونوں مُغل تھے ۔ یعنی اُن کا تعلق جنگجو قوم سے تھا۔ پاکستان کے پہلے منتخب صدر میجر جنرل (سکندر مرزا) بھی مغل تھے۔ جناب ذالفقار علی بھٹو صدر ( میجر جنرل (ر) سکندر مرزا) کی کابینہ میں وزیر رہے اور پھر جنگجو اقوام کے صدر محمد ایوب خان اور آغا جنرل محمد یحییٰ خان کے بھی نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ رہے ۔ 1968ء کے اوائل میں گلبرگ لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کے گھر پر پریس کانفرنس سے خطاب کِیا( جِس میں مَیں بھی روزنامہ ’’ وفاق‘‘ لاہور کی طرف سے موجود تھا) ، جب ایک صاحب نے بھٹو صاحب سے ایک معروف صحافی کا تعارف کرایا کہ ’’ بھٹو صاحب یہ ہیں ’’ م ۔ ش‘‘ صاحب ( میاں محمد شفیع) ۔ یہ بھی آپ کے ارائیں بھائی ہیں‘‘۔ بھٹو صاحب نے مسکراتے ہُوئے کہا کہ ’’ ہم ارائیں نہیں ہیں بلکہ راجپوت ؔہیں ۔ ( ارائیں )صدر جنرل ضیاء اُلحق کے دَور میں 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں نواب شاہ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار حاکم علی زرداری اور آصف علی زرداری ہار گئے تھے ۔18دسمبر 1987ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو سے ، آصف علی زرداری کی شادی ہُوئی ۔زرداری ؔ بھی جنگجو قوم بلوچوں کی ایک شاخ ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنی شوہر نامدار کو اپنی پارٹی میںکوئی عہدہ نہیں دِیا تھا۔ اُن کے قتل کے بعد ، جنابِ آصف زرداری نے (مرحومہ کی مبینہ برآمدہ وصیت کے مطابق ) اپنے 19 سالہ بیٹے بلاول زرداری کو ’’ بھٹو ‘‘ کا خطاب دے کر اُسے پارٹی کا چیئرمین نامزد کردِیا اور خُود اُس کے ماتحت شریک چیئرمین بن گئے۔ بلاول بھٹو کے ساتھ ساتھ جنابِ زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی دونوں بیٹیوں کے نام کے ساتھ بھی بھٹوؔ کا لاحقہ لگا دِیا گیا ہے۔ جنابِ زرداری اگر چاہتے تو، اپنے نام کے ساتھ بھی بھٹوؔ کا لاحقہ لگا سکتے تھے۔ آصف علی زرداری اُس وقت صدرِ پاکستان تھے جب، لاہور ہائیکورٹ کے لارجر بنچ نے صدر زرداری کے دو عہدے رکھنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت کے دَوران ،17 مارچ کو حکم دِیا تھا کہ ’’ صدر آئندہ سماعت (29 مارچ) تک سیاسی عہدہ چھوڑ دیں ورنہ عدالت اپنا فیصلہ کرے گی ‘‘۔ چنانچہ صدر زرداری نے حکم کی تعمیل کی اور 22 مارچ ہی کو پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن شِپ سے مستعفی ہوگئے۔ پھر ہُوا یوںکہ ’’ صدر آصف زرداری ، ایوان صدر تک ہی محدود ہو کر رہ گئے اور بلاول بھٹو زرداری دہشت گردوں کے خوف سے "VideoLink" کے ذریعے ووٹروں سے خطاب کرتے تھے ۔ پھر اُن کے پاس یہی نعرہ رہ گیا تھا کہ … مَرسُوں ،مَرسُوں ، سِندھ نہ ڈیسوں ! پارٹی کے عام کارکنوں کا یہ نعرہ تھا کہ … بی بی ہم شرمندہ ہیں ، تیرے قاتل زندہ ہیں! کل بھی ہم شرمندہ تھے، آج بھی ہم شرمندہ ہیں! جناب آصف زرداری اپنی سادگی / چالاکی سے اپنی اہلیہ کے مقدمہ قتل میں مُدعی نہیں بنے اور بالغ ہونے کے بعد بلاول بھٹو نے بھی اپنی ’’رانی ماں ‘‘کے قتل کو سنجیدگی سے نہیں لِیا؟۔ صدر کی حیثیت سے جناب زرداری نے سکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ کی تحقیقاتی / تفتیشی ٹیموں کو زحمت تو دِی ۔ گذشتہ سال عید الاضحی سے دو دِن پہلے راولپنڈی کی عدالت ِانسدادِ دہشت گردی کے جج محمد اصغر خان نے سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کے 5 طالبان ملزمان۔ اعتزاز شاہ، رفاقت ، حسنین گُل، قاری عبداُلرشید اور شیر زمان کو عدم ثبوت کی بِنا پر بری کردِیا، سابق سی۔ پی۔ او، سعود عزیز ، ایس۔ پی۔ خُرم شہزاد کو محترمہ بے نظیر کے قتلِ کے ’’Crime Scen‘‘ (جُرم کے محلِ وقوع) کو قتل کے دو گھنٹے بعد دُھلوانے یعنی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتل یا قاتلوں کی سہولت کاری کے جُرم میں ، سترہ سترہ سال قیداور دس دس لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سُنائی۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو عدالت میں نہ حاضر ہونے پر اشتہاری قرار دے کر اُن کی جائیداد کو قُرق کرنے کا حکم دِیا ۔ 7 ستمبر2017ء کو کراچی میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین جناب آصف زرداری کی مشترکہ صدارت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ’’ اعلیٰ سطحی مشاورتی اجلاس‘‘ کے بعد الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ اجلاس میں بے نظیر بھٹو قتل کیس کے فیصلے پر مشاورت کی گئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے شرعی وارث ؔ (یعنی جناب آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری ) اپیل کا حق رکھتے ہیں اور وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کیس کا راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں کریں گے!‘‘ ۔ اِس پر ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے جناب لطیف کھوسہ اور اُن کی شریعت سے متعلق کہا کہ … جِتّ لیا ، اونہاں زرداری جی ،تے بلاول جی دا، بھروسہ! جدوں وِی مِلن ، کچہری وِچّ سردار لطیف جی ، کھوسہ! بغیر اجازت ، لَے لواں گا مَیں اونہاں دے ، سِر دا ،بوسہ ! بھانویں ، بھائی اعتزاز ؔاحسن نال ، ہو جائے میرا ،روسہ! معزز قارئین!۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ’’ 27 دسمبر 2018ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر گڑھی خُدا بخش میں مرحومہ / مقتولہ کی چھوٹی بہن صنم بھٹو کی"Launching" (رونمائی ) نہیں کی گئی ۔ حالانکہ کئی دِنوں سے میڈیا پر یہ خبریں آ رہی تھیں کہ ’’ جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کو، انواع و اقسام کے مقدمات میں سزا ہونے سے پہلے ہی صنم بھٹو صاحبہ کو ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمٹیرینز ‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) میں کوئی اہم عہدہ دِیا جا رہا ہے ‘‘۔ صنم بھٹو صاحبہ ، جلسہ گاہ میں بیٹھ کر آنسو بہاتی رہیں اور زرداری صاحب کی دونوں بیٹیاں بھی۔ جنابِ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری پہلے ’’ بھٹو اِزم‘‘ کے علمبردار تھے لیکن، برسی کے موقع پر اُنہوں نے جس طرح کی تقریریں کیں اُن سے تو، مجھے ’’زرداری، بلاول اِزم ‘‘کا ایک نیا فلسفہ / نظام نظر آتا ہے۔ نام لئے بغیر باپ ، بیٹوں نے اعلیٰ عدلیہ اور پاک فوج کو ٹھیکیدار طاقتیں قرار دے کر خبردار کِیا کہ ’’ مُلک ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے ۔ایک چنگاری سب کچھ راکھ کرسکتی ہے ‘‘۔ ہم سب بھٹو ؔ (ذوالفقار علی بھٹو) ہیں ، ہم سب لڑیں گے! ‘‘وغیر ہ، وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ ’’ زرداری جی فریال تالپور ، اور بلاول بھٹو کے خلاف مقدمات کا فیصلہ تو ، عدالتوں نے کرنا ہے ؟ ۔ پھر ماورائے عدالت محترمہ بے نظیر کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر اِس طرح کی تقریریں کرنے کا کیا مطلب ؟ ۔ مرزا غالبؔ نے تو، اپنی وفات سے پہلے اپنے بارے میں پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ … ہُوئے ہم جو، مر کے رُسوا، ہُوئے کیوں نہ غرقِ دریا؟ نہ کہیں جنازہ اُٹھتا، نہ کوئی مزار ہوتا؟ لیکن، معزز قارئین !۔ مَیں دوبار دِلّی گیا ۔ ایک بار صدر جنرل پرویز مشرف کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اور دوسری بار جب ، مَیں اپنے جدّی پشتی پیر و مرشد خواجہ غریب نواز ، نائب رسول فی الہند حضرت معین اُلّدین چشتی اجمیرؒ کی بارگاہ میں حاضری کے لئے اجمیر شریف گیا ۔ مَیں نے دونوں بار میں مرزا غالبؔ کے مزار پر حاضری دِی ہے ،بہت سے لوگ اُن کے مزار پر پھول چڑھا کر اور فاتحہ پڑھ کر چپکے سے جاتے رہے اور مَیں نے بھی ایسا ہی کِیا۔