صوفیاء و علماء کی برکتوں اور کوششوں سے لاہور نہ صرف مرکز اسلام ہند شمار کیا جانے لگا بلکہ اس کو ثانی دارا لملک غزنین کا رتبہ حاصل ہو گیا۔ کتب خانوں کی یہ حالت تھی کہ فخر الدین مبارک شاہ نے جب بحرالانساب کی تالیف شروع کی تو نسب جیسے دقیق موضوع پر ایک ہزار کتاب ان کو میسر آ گئی۔بالعموم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی اور ان کے مذہبی‘ دینی‘ تعلیمی اور تمدنی ادارے غوریوں کی فتوحات کے بعد وجود میں آئے۔ لیکن یہ امر حقیقت کے منافی ہے، شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی اقدار سے قبل مسلمان یہاں آباد ہو چکے تھے اور انہوں نے اپنی خانقاہیں‘ مدرسے اور مسجدیں قائم کر لی تھیں۔ ہندوستان کی سب سے بڑی خانقاہ اور ہندی مسلمانوں کا سب سے بڑا روحانی اور دینی مرکز ’’اجمیر‘‘پرتھوی راج کے عہد حکومت میں قائم ہوا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ پرتھوی راج کے عہد میں ہندوستان آئے اور اجمیر کو اپنا مستقر بنا کر دین اسلامی کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہو گئے۔ تاہم ہندوستان میں مسلمانوں کی علمی اور دینی زندگی کا باقاعدہ آغاز‘ سلطنت دہلی کے قیام سے ہی ہوتا ہے۔ سلطنت دہلی کی بنیاد ایسے زمانے میں رکھی گئی۔ جب وسط ایشیا میں مسلمانوں کے علم و فضل کے مراکز تباہی سے دوچار تھے۔ بغداد و بخارا کے ٹوٹے پھوٹے تارے ہندوستان کی فضائے علم پر آفتاب و ماہتاب بن کر نمودار ہوئے اور یوں اسلامی ہند کو اپنے ابتدائی دور میں علماء و مشائخ کی ایک ایسی کثیر تعداد مل گئی جس نے سارے خطے کو بقعہ نور بنا دیا۔ اس قافلے کاجو فرد جہاں ٹھہر گیا وہاں ایک علمی اور روحانی مرکز کی داغ بیل پڑ گئی۔ بغداد و بخارا کے علمی خزانے سرزمین ہند میں ہر خاص و عام کے لئے کھول دیے گئے اور ملک کا گوشہ گوشہ علم و روحانیت سے جگمگا اٹھا۔ سلطان شمس الدین التمش مشائخ و علماء کی صحبت کا بڑا شوقین تھا۔ جب کسی بزرگ یا عالم کی آمد کا سنتا تو میلوں تک استقبال کے لئے نکل جاتا اور نہایت عزت و احترام کے ساتھ شاہی مہمان کے طور پر ٹھہراتا۔ اس کی علم دوستی سے متاثر ہو کر صدہا مشائخ‘ صوفیا و علماء شعرا ادیب اس خطہ میں آ کر قیام پذیر ہوئے۔التمش کے عہد میں جو مشائخ اور علماء ہندوستان آئے ان میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں۔ 1۔شیخ خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ اوشی۔2۔سید نور الدین مبارک غزنویؒ۔3۔الشیخ قاضی حمید الدین ناگوریؒ۔4۔ شیخ جلال الدین تبریزیؒ۔5۔ شیخ نظام الدین ابو المویدؒ۔6۔ مولانا مجد الدین حاجیؒ۔ 7شیخ بدرالدین غزنویؒ۔ 8۔ شیخ محمد ترکؒ۔ بلا شبہ برصغیر میں قافلہ علم و حکمت اور شریعت و طریقت کے سرخیل ایسے عظیم المرتبت صوفیاء تھے ‘ جن کا تجر علمی اپنی جگہ مسلمہ تھا اور انہیں کے دم قدم سے اسلام کے شجر طیبہ کو مضبوطی اور تقویت میسر آئی۔ بایں وجہ برصغیر کے ابتدائی تدریسی نظام پر تصوف کا غلبہ ایک فطری اور بدیہی سی بات تھی۔ جس کا اثر جملہ مدارس دینیہ نے بخوشی قبول کیا۔ مدارس کی اقسام:اسلامی ہند میں ابتدائی طور پر قائم ہونے والے مدارس حسب ذیل نوعیت کے تھے، خانقاہوں سے ملحق ۔مساجد سے ملحق ۔مزارات سے ملحق ۔حکومت کے قائم کردہ اورانفرادی ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒکی ہندوستان تشریف آوری ایک زبردست روحانی‘سماجی ‘ علمی اور دینی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔اس انقلاب کی اہمیت سمجھنے کے لئے گیارہویں اور بارہویں صدی کے ہندوستان کی سماجی حالت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ جس میں پورا معاشرہ اسیر امتیاز ماوتو میں الجھا ہوا اور ایک دوسرے سے برسر پیکار تھا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے چھوت چھات کے اس بھیانک ماحول میں اسلام کا نظریہ توحید عملی سطح پر پیش کیا اور بتایا کہ یہ محض ایک تخیلی چیز نہیں ہے‘ بلکہ زندگی کا ایک ایسا اصول ہے جس کو تسلیم کر لینے کے بعد ذات پات کی سب تفریق بے معنی ہو جاتی ہے۔ خواجی اجمیری ؒ کے خلفا میں دو بزرگ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ شیخ قطب الدین بختیار کاکیؒ اور شیخ حمیدالدین ناگوریؒ۔ شیخ قاضی حمید الدین ناگوری ؒصاحب تصنیف بزرگ تھے۔ ان کی تصانیف رسالہ عشقیہ‘ طوالع الشموس ‘ لوائح اور شرح اسمائے حسنیٰ‘ دین و تصوف اور روحانیت کی معرکتہ الآرا کتابیں تھیں۔ آپؒ نے ناگور میں قیام فرمایا اور ایک بیگہ زمین کی کاشت سے اپنا گھر بار چلاتے‘ ان کی شانِ استغناء نے دنیاوی جاہ و حشم کا تذکرہ بھی ان کی مجلس میں نہ آنے دیا۔ ایک مرتبہ ناگور کے والی نے کچھ زمین اور نقدی روپیہ نذر پیش کی۔ آپؒ نے قبول کرنے سے معذرت چاہی اور فرمایا: ہمارے خواجگان میں سے کسی نے ایسی چیز قبول نہ کی‘ ایک بیگہ زمین جو میرے پاس ہے‘ میرے لئے کافی ہے۔ راجپوتانہ کے ایک گائوں میں کاشت کرنے والا یہ ’’مرد فقیر‘‘ ایک جید عالم اور دینی علوم پر کامل دسترس رکھنے والی ایسی ہستی تھی‘ جو اپنے مریدین اور متعلقین کو’’علم الفرائض‘‘ کے حصول کی تلقین اور امام غزالی کی ’’کیمیائے سعادت‘‘ ہمہ وقت زیر مطالعہ رکھنے کی تاکید کرتے تھے۔ اس عہد اولین کا نصاب کیا تھا۔۔۔۔۔؟ اور مقاصد تعلیم کیا تھے؟ اگر نصاب تعلیم سے مقاصد تعلیم کا پتہ لگایا جا سکتا ہے تو ’’سرور الصدور‘‘ میں شیخ حمید الدین ناگوری کے وضع کردہ نصاب کی مجوزہ کتابوں کو پیش نظر رکھیں۔ جن کا ذکر خلیق احمد نظامی نے اپنی تصنیف’’تاریخ مشائخ چشت‘میں کیا ہے جن کی تدریس کا بنیادی مقصد مسلمانوں میں صحیح دینی جذبہ پیدا کرنے کی امنگ اور پھر مسلمانوںکے لئے دین کے بنیادی مسائل اور اوامرونواہی اور فرائض سے پوری طرح واقفیت بطور خاص پیش نظر تھا۔ ایبک اور التمش کے زمانہ میں ہندوستان میں چشتیہ اور سہروردیہ سلسلہ کی خانقاہیں قائم ہوئیں‘ سہروردیہ سلسلہ کی معروف شخصیت حضرت بہائوالدین زکریا ملتانیؒ کو تعلیم کا بڑا شوق تھا۔ انہوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے نہایت اعلیٰ اور قابل اساتذہ معقول مشاہرہ پر متعین کئے تھے۔ چشتیہ سلسلہ کی خانقاہوں میں مریدوں کی تعلیم کا انتظام رہتا تھا۔ بابا فرید الدین گنج شکرؒ نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ کو قرآن پاک کے چند پارے‘ تمہید ابوشکور سالمی اور عوارف المعارف سبقاً سبقاً پڑھائی تھی۔ حضرت شیخ بختیار کاکیؒ جب ملتان پہنچے تو دیکھا کہ بابا فرید الدین گنج شکرؒ مولانا منہاج الدین ترمذی کی مسجدمیں ’’کتاب نافع‘‘ کا مطالعہ فرما رہے تھے۔ مولانا علائوالدین اصولی اور مولانا شادی مقری نے بدایوں میں‘ مولانا شمس الدین ملک اور مولانا کمال الدین زاہد کے مدرسے دہلی میں شہرت کے حامل ہیں ۔