آج میں اس موضوع پر قلم اٹھا رہا ہوں جس موضوع پر پاکستان کی قومی میڈیا تو کیا سندھ کی قوم پرست میڈیا نے بھی دو حروف نہیں لکھے۔ آج میں سندھ کے ان انسانوں کی بات کرنے جا رہا ہوں جن کی اکثریت آج بھی نیم غلام ہے۔ اگر سندھ کے قوم پرست وڈیرے کہتے ہیں کہ سندھ کے لوگ غلام ہیں تو پھر انہیں یہ بات سننے کا حوصلہ ہونا چاہئیے کہ وہ لوگ غلاموں کے بھی غلام ہے۔ وہ لوگ صدیوں قبل افریقہ سے سندھ کے ساحل پر اترے تھے۔ وہ سیاہ فام لوگ تھے ؛ جن کی بڑی اور خوبصورت آنکھوں میں یہ سوال تھا کہ ’’یہ کس دیس کا ساحل ہے؟‘‘ یہ ساحل اس دیس کا تھا جس دیس پر جب انگریزوں نے حملہ کیا تھا؛ تب حیدرآباد کے قریب لگنے والے میدان جنگ میں سندھ کی فوج خوف سے خاموش تھی۔ اس سہمی ہوئی فوج میں صرف ایک سپاہی کا نعرہ بلند ہوا تھا۔ اس سپاہی کا نام ’’ہوشو شیدی‘‘ تھا۔ وہ ہوشو شیدی سندھ کی شرمندہ تاریخ کا ایک گمنام کردار بن جاتا ؛ اگر اس کے لیے فاتح فوج کے جرنیل نے یہ الفاظ نہ لکھے ہوتے کہ اس سندھ کے تالپور حکمرانوں کی ساری فوج میں صرف ایک سپاہی تھا جس کے ہاتھ میں آخر تک انگریز سپاہیوں کے خون میں رنگی تلوار تھی۔ وہ سپاہی کون تھا؟ وہ سپاہی سندھ کے اس قبیلے کا فرد تھا جس قبیلے کو غلام بنا کر لایا گیا۔ وہ غلام ابن غلام تھے۔ وہ غلام ابن غلام ہیں۔ آج بھی سندھ کے ساحلی علاقوں کے وڈیروں کے بنگلوں میں وہ سیاہ فام لوگ غلاموں کی طرح کھڑے نظر آتے ہیں؛ جن لوگوں کا سندھ میں ہر طرح سے استحصال ہوتا رہا ہے۔ ان انسانوں کی ایک الگ تھلگ دنیا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ پاکستان کے گمنام گوشوں کو قلم کی سیاہی سے اجاگر کرنے والے خانہ بدوش ادیب مستنصر حسین تارڑ نے بھی ان انسانوں کے بارے کچھ نہیں لکھا جو سندھ کے سوا پاکستان کے کسی گوشے میں نہیں ہیں۔ وہ سیاہ فام لوگ جو افریقہ کے گمنام ساحلوں سے زنجیروں میں جکڑ کر لائے گئے۔ ان کے کچھ خوبصورت نام بھی تھے۔ وہ نام اب تاریخ کے طوفان میں سوکھے ہوئے پتوں کے مانند اڑ چکے ہیں۔ اب ان کے نام وہی ہیں جو سندھ کے عام لوگوں کے ہیں۔ عیسو؛ موسواور خانو؛ خیرو!یہ سندھ کے عام دیہاتی نام ہیں۔ مگر تعلیم کی کرنیں بکھری ہیں وہاں ان کے ایسے بھی نام ہیں؛ جیسے امتیاز؛ مشتاق ؛ رحیم بخش اور رفیق! سندھ کا ایک سیاہ فام شخص ڈاکٹر رفیق بھی ہے جو سندھ کے مظلوم ساحلی علاقے کا باشندہ ہے مگر وہ سیاہ فام ہے۔ وہ سیاہ فام جس کو سندھ میں ’’شیدی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس لفظ کے تاریخی پس منظر کے پردے ہم پھر کبھی ہٹائیں گے ۔ مگر وہ شیدی سندھ میں محبت اور مسکراہٹ کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے کبھی پاکستان کے ریڈیو میڈیا پر اپنی آواز کا جادو جگایا تھا۔ جن لوگوں نے یہ سندھی گیت گایا تھا: ’’شیدی بادشاہ ہم بادشاہ جیڈا پیر تیڈا خیر‘‘ اس گیت کا مطلب ہے کہ ہم شیدی ہیں۔ ہم اپنے من کے بادشاہ ہیں۔ گرچہ ہمارے بال سیدھے نہیں مگر ہمارا موڈ کبھی آف نہیں ہوتا۔ ہماری جلد کا رنگ سیاہ ہے مگر ہماری سوچ کا رنگ سفید ہے۔ ان لوگوں کا یہ گیت یہ دعا ہے کہ ’’جس طرف تمہارے قدم اٹھیں وہ خیر و برکت کا راستہ ہو‘‘ جن لوگوں کے ہونٹوں پر یہ دعا رہتی ہے؛ ان لوگوں کی رگوں میں یہ افریقی خون موجزن ہے جو ڈھول کی تھاپ سن کر مست ہوجاتا ہے۔ جس طرح فیض صاحب نے اپنی ایک غضب نظم کا عنوان ہی لکھا تھا ’’آجاؤ افریقہ‘‘ اس نظم کے بول ہیں: ’’آجاؤ میں نے سن لی تیرے ڈھول کی ترنگ آجاؤ مست ہوگئی میرے لہو کی تال آجاؤ افریقہ! آجاؤ میں نے دھول سے ماتھا اٹھا لیا آجاؤ میں نے درد سے بازو چھڑالیا آجاؤ میں نے چھین لی آنکھوں سے غم کی چھال آجاؤ افریقہ ! آؤ ببر کی چال!!‘‘ فیض صاحب کی یہ نظم تو مغرب کے ان سیاہ فام انسانوں کے لیے تھی جنہوں نے ستر کی سرکش دہائی میں یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ ’’Come Back Africa‘‘ مگر شیخ ایاز نے اپنی دھرتی کے ان افریقی غلاموں کے بارے میں لکھا ہے: ’’وہ سب آدھی رات کو آتے ہیں مگر مان پر اپنا آپ نچاتے ہیں! مگر مان کے چمڑے نیچے ان کے بہت جنم ہیں اور وہ سارے جنم سیڑھیاں بن کر تاریخ میں بہت دور جاتے ہیں!‘‘ وہ تاریخ جس پر سندھ کے قوم پرستوں نے کبھی شرم کا اظہار نہیں کیا۔ وہ لوگ غلام تھے اور وہ لوگ غلام ہیں مگر ان کے بارے میں جی ایم سید جیسے جدید سندھی قوم پرستی کی علامت نے بھی ایک لفظ نہیں لکھا۔ حالانکہ وہ جدید سندھ کی قدیم تاریخ کا ایک کہنہ زخم ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو لیاری میں پیپلز پارٹی کے خلاف ایک بغاوت ہیں مگر سندھ کے دیہاتوںمیں ان کا کردار اب تک غلامانہ ہے۔ وہ سندھ کے وڈیروں کے سامنے ایک ایسا لفظ بولنے کی جرأت نہیں کرسکتے جو وڈیرے یا اس کے کسی چمچے کو برا لگے۔ وہ لوگ ان وڈیروں کی قدیم حویلیوں میں آتے جاتے ہیں۔ جن پر ہونے والے جنسی استحصال کے بارے میں سندھ کی بیباک ادیبہ اور ملک کی مشہور ڈرامہ نویس خاتون نور الہدی شاہ نے بھی اپنے افسانوں میں صرف کچھ اشارے کیے ہیں۔ ان کے بارے سارا سچ کسی نے نہیں لکھا۔ گزشتہ دن جب سندھ اسمبلی میں اس غلام قبیلے کی ایک عورت ایم پی اے کے طور پر حلف اٹھاتی نظر آئی تب میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں اس منظر پر آنسو بہاؤں یا مسکراؤں؟ افریقی نسل سے تعلق رکھنے والی ایک عورت کو ملنے والی یہ عزت سندھ کی اس سیاہ فام آبادی کے ساتھ انصاف ہے؟ جو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں آج بھی ایک وڈیرے کے در سے دوسرے وڈیرے کے در تک بھٹک رہے ہیں۔ ان لوگوں کا مقدر آخر کب کروٹ لے گا؟ ان لوگوں کو انصاف کب ملے گا؟ پہ لوگ جو نسل در نسل ’’دلاں تیربجا‘‘ کے دھن پر رقص کرتے آ رہے ہیں۔ وہ لوگ اس راستے کے راہی جس راستے پر انہیں اب تک منزل حاصل نہیں ہوئی۔ وہ منزل کیا ہے؟ کیا وہ منزل اقتدار ہے؟ ان کے صاف اور شفاف دل میں اقتداری لالچ کا میل کبھی نہیں رہا۔ وہ اپنی محنت سے زندگی کے مختلف شعبوں میں بہت آگے تک گئے ہیں مگر ان کے دل میں ابھی تک غم کی ایک ناقابل بیان کسک ہے۔ وہ کسک کیا ہے؟ کیا وہ اپنی جڑوں کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں؟ ان کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے آباؤ اجداد (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) افریقہ کے کون سے ساحل سے غلام بنا کر لائے گئے تھے۔ ان کو تو اپنے قبیلے کی قدیم زباں بھی نہیں آتی؟ وہ سندھ کی سرزمیں کو چھوڑ کر کہاں جائیں گے؟ وہ اس دھرتی کو چھوڑنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے مگر ان کے اندر میں یہ احساس ضرور پلتا رہتا ہے کہ انہیں بھی اس دیس میں وہ برابری حاصل ہو جو عام سندھیوں کو ہے۔ افریقی سندھیوں کی بہت بڑی آبادی صرف اس بات پر خوش نہیں ہوسکتی کہ اس کمیونٹی کی ایک خاتون کو سندھ اسمبلی کا ممبر بنایا گیا ہے۔ وہ لوگ زندگی کے ہر شعبے میں برابری چاہتے ہیں۔ وہ لوگ دولت نہیں عزت کے خواہشمند ہیں۔ ان لوگوںکا مسئلہ صرف معاشی اور معاشرتی نہیں ہے۔ وہ لوگ اس محبت کے حقدار ہیں جنہیں عام سندھی آبادی سے وہ محبت نہیں ملتی۔ ان کو ان کے رنگ اور نقوش کے بنیاد پر جس طرح کمتر سمجھا جاتا ہے اور انہیں احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ عام سندھیوں جیسے نہیں ہیں؛ انہیں اس احساس سے نجات چاہئیے۔ وہ لوگ اس سچائی سے بھی آگاہ ہیں کہ سندھ میں بہت سارے قبائل دور دراز دیسوں سے آئے۔ جس طرح سید عرب ممالک سے آئے اور پٹھان افغانستان سے آئے؛ اسی طرح یہ لوگ افریقہ سے آئے۔ آج اگر سندھ میں دیگر قبائل کو سماج میں عزت بھری حیثیت حاصل ہے تو ان انسانوں سے ہمارا سلوک برا کیوں ہے جن انسانوں نے ہمارا استحصال نہیں کیا۔ جن انسانوں کے بزرگوں نے سندھ پر حملہ نہیں کیا۔ جن انسانوں نے تاریخی طور پر سندھ کو غلام نہیں بنایا۔ جو غلام بنا کر لائے گئے مگر جب سندھ پر سفید فام انگریزوں نے حملہ کیا تب اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے سپاہی نے یہ صدا بلند کی تھی : ’’مرسوں مرسوں سندھ نا ڈیسوں‘‘ سندھ کے ان سیاہ فام محافظوں سے ہم تاریخی معافی کب مانگیں گے؟