سیدمسعود حسنین زیدی ادب دوست زمیندار تھے اس لئے محکمہ امیگریشن سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لی اور اپنے والد ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی کے نام پر ایک مجلس بنا کر نوادر کا اجرا کیا۔ نوادر کا نام مشفق خواجہ نے تجویز کیا۔ اس مجلس کو مشفق خواجہ کے علاوہ ڈاکٹر وحید قریشی اور ڈاکٹر گوہر نوشاہی کی سرپرستی حاصل رہی۔ زیدی صاحب کو اہل علم و فضل کی میزبانی کا ازحد شوق تھا۔ ایک بار کراچی سے ڈاکٹر سحر انصاری لاہور تشریف لائے۔ زیدی صاحب نے انہیں اپنے ٹھہرایا‘ ممتاز کالم نگارہ رئیس فاطمہ اور ان کے شوہر صحافی و محقق قاضی اختر جونا گڑھی جب بھی لاہور آتے زیدی صاحب کے گھر مقیم ہوتے۔ زیدی صاحب مختلف احباب کے ذریعے خبر رکھتے کہ کون سا ادیب و محقق کب لاہور آ رہا ہے‘ پہلے سے واقفیت ہونا ضروری نہیں تھا۔ زیدی صاحب اتنے پیار اور چاہت سے دعوت دیتے کہ بندہ بے بس ہو جاتا۔ پھر مہمان جتنے دن لاہور میں رہتا اسے کہیں آنے جانے کیلئے زیدی صاحب کی کشادہ کار بمعہ ڈرائیور دستیاب ہوتی۔ مجھے نوادر جیسے تحقیقی جریدے کا پانچ برس تک ایڈیٹر رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ زیدی صاحب کے تمام مہمانوں اور میزبانوں سے ملاقاتیں رہیں۔ سات آٹھ سال پہلے زیدی صاحب راہی ملک عدم ہوئے اور نوادر کی اشاعت سمیت علمی منصوبوں کے معاملات بھابی شاہین زیدی نے سنبھال لئے یہ سلسلہ نہایت خوش اسلوبی سے برقرار ہے۔ سہ ماہی نوادر آج بھی شائع ہو رہا ہے اور ملک میں تحقیقی جرائد کی کمی پوری کرنے کا فرض کفایہ ادا کر رہا ہے۔ کوئی بیس سال پہلے اپنے ہم عمر چند شاعروں کو سنا۔ احمد فرید خانیوال سے آیا تھا۔ میرے ساتھ ایک اخبار کے نیوز ڈیسک پر کام کرتا تھا اس کی غزلوں میں رومان اور سنانے کا انداز ایسا دلکش ہے کہ اس سے فوراً دوستی کئے بغیر رہا نہیں جا سکتا۔ حسن عباسی کو آج کون نہیں جانتا۔ اس وقت حسن عباسی‘عباس تابش کے ساتھ ان کے اشاعتی ادارے میں کام کر رہا تھا۔ آج وہ ایک کامیاب پبلشر اور مقبول شاعر ہے۔ پھر ارشد شاہین۔ گزشتہ دنوں ہمارے دوست احسان چھینہ نے استاد امام دین ادبی سوسائٹی گجرات کے زیر اہتمام مشاعرہ کرایا۔ ارشد شاہین نے بہت ہی عمدہ نعتیں سنائیں۔ عرصے بعد نئے نعت گو نے متاثر کیا۔ میں جن دنوں کی بات کر رہا ہوں ان دنوں ارشد بھی غزلیں کہا کرتا تھا۔ پھر کنور امتیاز ہے وہ مشاعروں میں کم جاتا ہے۔ شاید کچھ ذاتی مصروفیات ہیں مگر خوب شعر کہتا ہے‘ میں نے ان چاروں پر لکھا او رآج سرخرو ہوں کہ اتنے برس قبل جو لکھا آج وہ ثابت ہو رہا ہے۔ ہر دور کے تخلیقی رویوں پر اس دور کے حالات کی مہر ہوتی ہے‘ آپ اسے ذائقہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ میں نے ایک بار ڈاکٹر وحید قریشی سے پوچھا کہ آپ کس طرح اندازہ لگاتے ہیں کہ کوئی مخطوطہ کس زمانے کا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے عجیب جواب دیا: کہا کہ کاغذ چبا کر بتا سکتا ہوں کہ یہ کس دور کا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو روشنائی بنانے کے ارتقائی زمانوں سے لے کر مختلف علاقوں میں مختلف ادوار میں کاغذ کی تیاری کے عمل سے مکمل واقفیت تھی۔ وہ کتنی ہی دیر مجھ سے قدیم زمانے سے عہد جدید تک روشنائی بنانے کے نسخوں پر بات کرتے رہے۔مختلف جڑی بوٹیوں کے مرکب سے لے کر توے کی پشت پر جمع ہونے والی سیاہ راکھ تک سے روشنائی بنتی ۔ خیر بات تخلیق رویوں کی ہو رہی ہے۔ اردو شعر و ادب کا کلاسیکل دور مغل عہد کے اختتام کا زمانہ ہے پھر اصلاحی دورشروع ہوا۔ زبان اور موضوعات کے حوالے سے اہم یہ دور سرسید‘ حالی اور میر درد کا زمانہ ہے۔ اس کے بعد قومی اور سیاسی موضوعات نے پذیرائی پائی۔ بہت سوں نے لکھا مگر اس عہد کے نمائندہ علامہ اقبال رہے۔ پاکستان بنا تو ہجرت کے دکھ شعر سے زیادہ ناول اور افسانوں میں بیان ہوئے۔ ملک میں آمریت ایک جبر بن کر آئی تو فیض اور جالب ابھرے۔ وہی فیض جن کی نظمیں آج بھارت کی یونیورسٹیوں میں طلبا گا کر بھارتی پولیس سے لڑتے ہیں۔ گویا فیض کے الفاظ بھی لڑنے کی طاقت دیتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ادب میں ان لوگوں کو آگے لایا گیا جو سرکاری کالجوںمیں پروفیسر تھے یا سرکاری افسر تھے۔ گلیوں محلوں میں سراپا شعر فقیر منش شاعروں کو مسلسل 11سال نظر انداز کیا گیا۔ بعدازاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی حکومتوں نے ضیاء الحق کی پالیسی جاری رکھی۔ سرکاری شاعروں ادیبوں کو اہمیت دینے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان سے من چاہا کام لیا جا سکتا ہے۔ جیسے ایوب خان نے قدرت اللہ شہاب سے لیا کہ ادب کو سیاسی موضوعات سے دور کر دیا۔ آج بھی اکثر مشہور شاعر‘ ادیب اور کالم نگار سرکاری کالجوں اور محکموں سے وابستہ ہیں۔ اپنی سرکاری حیثیت کا دوہرا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر سب رتب و یا بس لکھ رہے ہیں۔ شاید کسی کو یاد نہ ہو کہ شعری ادب کی ایک صنف شہر آشوب ہے۔ شہر آشوب معاشرے اور تہذیب کے انحطاط کا نوحہ اور عوام کے بے آسرا رہنے پر لکھا جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے شہر آشوب لکھے۔نظیر اکبر آبادی کی نظمیں شہر آشوب ہیں۔ ان دنوں جھنگ کے نوجوان شاعر افکار علوی کی نظم ’’مرشد‘‘ خاص و عام کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس کی ویڈیو لاکھوں سن چکے ہیں۔ جس نے سنا متاثر ہوا۔ افکار علوی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں لیکن یقین ہے کہ اس عہد کو ایک نمائندہ شاعر مل چکا ہے۔ افکار علوی کے کچھ شعر ملاحظہ فرمائیں۔ مرشد پلیز آج مجھے وقت دیجیے/مرشدمیں آج آپ کو دکھڑے سنائوں گا/مرشد ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہو گیا/مرشد ہمارے دیس میں اک جنگ چھڑ گئی/مرشد ہمارے ذہن گرفتار ہو گئے/مرشد ہماری سوچ بھی بازاری ہو گئی/مرشد ہمارے گائوں کے بچوں نے بھی کہا/مرشد کون آکھیں آ کے ساڈا حال دیکھ ونج ٭٭٭ جو ہمارے مرید ہو جائیں/پیر خواجہ فرید ہو جائیں/ان دنوں سب کو ہم میسر ہیں/آئیں‘ اور مستفید ہو جائیں ٭٭٭ مسعود حسنین زیدی حیات ہوتے تو افکار علوی کو ضرور مدعو کرتے۔ہم آٹے کا غم بھول جاتے۔