تشویش کی بات تو ہے، اگر آپ کو یہ خبر دی جائے کہ آپ کی سالانہ شرح نمو 5.8 سے کم ہو کر 4.8 فیصد رہ جائے گی۔ یعنی اس میں پورے ایک فیصد کمی ہو جائے گی، جبکہ ہم اس میں اضافے کے اندازے لگا رہے تھے۔ اس سال کے بجٹ میں اسے 6.2 فیصد دکھایا گیا تھا اور آئندہ سال اسے سات فیصد کے قرب و جوار میں ہونا تھا۔ یہ وہ حد تھی جہاں پہنچ کر ہم بڑھتی ہوئی غربت کو روک سکتے تھے اور اگر ہم دو ایک سال میں آٹھ فیصد تک جا پہنچتے تو نئے پیدا ہونے والے بچے کے لیے نوکری، ملازمت یا کام مہیا کرنے کی پوزیشن میں آ جاتے۔ دنیا بھر کے ادارے اس بات کی تصدیق کر رہے تھے کہ ہماری معیشت اس منزل کی طرف گامزن ہے۔ میں نے جب رات کو اپنے ٹی وی پروگرام میں اپنے دوست ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کو فون کیا۔ انہوں نے تسلی دی کہ 4.8 فیصد تو نہیں، یہ پانچ فیصد سے ذرا اوپر ہو گی۔ ہوسکتا ہے کہ 5.1 فیصد یا 5.2 فیصد ہو۔ یہ بھی بجٹ کے تخمینہ سے ایک فیصد کم تھی۔ آج مگر صبح اٹھ کر جو اخبار دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک اور عالمی ادارے FITCH فیچ نے 4.8 فیصد سے بھی کم دکھائی ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ اس سال 4.7 فیصد ر ہے گی اور اگلے سال 4.3 فیصد تک گرسکتی ہے۔ گویا اس برس ہم جو اقتصادی اقدامات کر رہے ہیں، اس کے اثرات اگلے سال بھی پھل نہیں لائیں گے۔ ہم مزید نیچے گرتے جائیں گے۔ کہاں گئے وہ خواب جو ہمیں دکھائے گئے تھے۔ میں کسی حکومت پر الزام نہیں دھر رہا، میں تو صورتحال بتا رہا ہوں۔ یہ صورتحال میں نے اسی وقت بتانا شروع کردی تھی جب عبوری نگران حکومت آئی تھی۔ میں نے اول روز میں اطلاع دی تھی کہ ہماری معیشت عالمی اسٹیبلشمنٹ کے معیشت دانوں کے ہاتھوں میں دے دی گئی ہے۔ صاف عرض کیا تھا کہ نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر وہ کام کریں گی جو آئی ایم ایف میں جانے کی راہ ہموار کریں گے۔ روپے کی قدر کم کریں گی۔ شرح سود بڑھائیں گی اور شرح نمو کو سست کریں گی یعنی ترقی کی تیز رفتاری پر بریکیں لگائیں گی۔ آخر انہوں نے کہہ دیا کہ شرح نمو 6.2 نہیں 5.5 کرنا پڑے گی۔ مجھے نہیں معلوم ایسا کیوں کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے معیشت ذرا زیادہ گرم Overheat ہو گئی ہے۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ اس کا مطلب کیا ہوتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ترقی کی رفتار سست کردی جاتی ہے، شرح نمو کو گرا دیا جاتا ہے۔ مجھے زیادہ تشویش اس بات کی تھی، اس کا مطلب کہیں سی پیک کے منصوبوں کو سست کرنا یا ان پر ازسرنو غور کرنا نہ ہو۔ ایسا ہی ہوا، ہماری اشرافیہ کے ایک سکہ بند نمائندے رزاق دائود نے بیان دیا کہ ایک سال کے لیے سی پیک کے منصوبے روک دیئے جائیں۔ کوئی کہتا یہ شفاف نہیں ہے، انہیں پبلک کیا جائے گا۔ کوئی کہتا اس بارے میں ازسرنو جائزہ لیا جائے گا۔ دو ٹوک لفظوں میں عرض ہے کہ امریکی لابی تیزی سے حرکت میں آ گئی ہے۔ سب سے زیادہ زہریلا پروپیگنڈہ سی پیک کے بارے میں کیا گیا۔ وہ تو کرم خدا کا یہ تھا کہ یہ صرف ہمارا منصوبہ نہ تھا، اس میں چین بھی شامل تھا، ان کے وزیر خارجہ پاکستان آئے۔ انہوں نے فوج کو بھی یاد دلایا کہ اس میں آپ ضامن ہیں۔ شاید یہ بھی بتایا ہو کہ چین بھی اتنا بڑا نقصان برداشت نہیں کرسکتا۔ خطے میں ایک ہلچل مچ گئی۔ کبھی سعودی عرب سے خبریں آتیں، کبھی قطر سے نوید سنائی دیتی، کبھی ترکی سرگرم عمل دکھائی دیتا، کہیں ایران کی باتوں سے سرگرمی دکھائی دیتی۔ یہ سب چھوٹا معاملہ نہیں تھا۔ ہمارے آرمی چیف کو بھی چین کا دورہ کرنا پڑا جہاں چینی صدر نے ان سے ملاقات کی۔ یہ چینی صدر مائوزے تنگ کے بعد چینی تاریخ کے سب سے بڑے آدمی گنے جاتے ہیں۔ درمیان میں صرف ذینگ ژائو پنگ آتے ہیں۔ وہ ایک صاحب نظر مدبر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ غیر معمولی بات یعنی چین نے بتا دیا کہ پاکستان اور چین کے درمیان سٹریٹجک پارٹنرشپ کی ضرورت ہے۔ یہ لفظ اب ایک طرح کے دفاعی تعلقات کے حوالوں سے بولا جاتا ہے۔ ہم ایسے نالائق لوگ ہیں کہ اعلان کردیا کہ سیف الرحمن کی ٹیکسٹائل ملز سے قطری نمبر پلیٹ کی ڈھیروں گاڑیاں پکڑی گئی ہیں۔ یہ خبر اس دن آئی جب یہ خبر چھپی کہ قطر ہمارے ایک لاکھ افراد کو ملازمت دینے کی پیش کش کر رہا ہے۔ اگرچہ یہ بندوبست پرانا ہے مگر اس کا تذکرہ ان دنوں آیا۔ بس ہم نے تو سیف الرحمن کے نام پر جھپٹا مارا تھا۔ پھر وہاں سے شاہد خاقان عباسی قدرتی گیس بھی تو لائے تھے۔ ہم ابھی تک انتخابات سے باہر نہیں آ رہے ہیں۔ اسی زمانے کی فضا میں جی رہے ہیں۔ اس وقت بھی اسلام آباد میں آئی ایم ایف سے مذاکرات ہورہے ہیں اور ہم کہے جا رہے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف کی طرف نہیں جارہے۔ اس ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے کئی آپشن کھلنا ہی چاہتے تھے کہ ہم نے سیاسی بحران برپا کردیا۔ اب اس کے حل کے لیے بھینسیں بیچ رہے ہیں۔ مشرف دور کے ماہرین معیشت آن پہنچے ہیں۔ اور وہی حل بتا رہے ہیں جو سی پیک کے عہد سے پہلے کئے ہیں۔ اس وقت کئی قوتیں برسرپیکار ہیں۔ ہم نے اپنا ترقیاتی بجٹ کم کردیا ہے۔ کہتے ہیں، وسائل نہیں ہیں۔ تو پہلی حکومت نے بجٹ میں کیوں رکھا تھا۔ بتایا جائے گا کہ قرضے لے کر ترقی کے کام کرتے۔ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ آپ کیا کریں گے کہ لوگوں کی غربت دور ہو، انہیں ملازمتیں ملیں، عوام کو فائدہ پہنچے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ آپ گیس، بجلی کی قیمتیں بڑھا دیں، اشیاء صرف کو مہنگا کردیں، جو دوچار سہولتیں انہیں حاصل ہیں، وہ چھین لیں اور یہ فرماتے رہیں ہم معیشت کو ٹھیک کر رہے ہیں۔ بھاڑ میں جائے ایسا ٹھیک کرنا جس کا سارا بوجھ عوام پر پڑ رہا ہو۔ ذرا بتا دیجئے، آپ کی درستی کے اقدامات کا عوام کو کیا فائدہ پہنچے گا۔ چین کے وزیر خارجہ نے بتایا تھا کہ یہ غلط پروپیگنڈہ ہے کہ چین نے پاکستان کو مقروض کردیا۔ آپ کا 47 فیصد قرضہ تو آئی ایم ایف اور ایشیا ڈویلپمنٹ بینک کا ہے اور یہ کہ سی پیک نے کوئی ستر ہزار لوگوں کو ملازمتیں دی ہیں اور شرح نمو میں 1.2 فیصد اضافہ کیا ہے۔ اس وقت بھی ملک کی معیشت ایسے ہی معیشت دان چلا رہے تھے جیسے اب چلا رہے ہوں گے۔ آپ کوئی آسمان سے لوگ لے کر نہیں آئے۔ مجھے قطعاً اس حکومت کی نیت پر شک نہیں، نہ اس بات پر شک ہے کہ وہ ان مضمرات سے واقف نہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ سیاسی ریلے میں بہہ کر ہم چینی معیشت دانوں پر اعتبار کر رہے ہیں۔ ان کی سوچ اور اس حکومت کی سوچ ایک نہیں ہے۔ اسد عمر کو میں کارپوریٹ سیکٹر کا نمائندہ سمجھتا ہوں۔ وہ انتہائی بھلے آدمی ہیں، مگر اس فریم میں قید ہیں جس سے نکلے بغیر آگے کا راستہ نہیں مل سکتا۔ ویسے ہم نے بہت نقصان کیا ہے۔ اس نقصان کی ذمہ دار حکومت نہیں ہے بلکہ وہ سیاسی بحران ہے جو ڈیڑھ دو سال سے اس ملک میں جاری ہے۔ اگرچہ مجھے توقع ہے کہ ہم اس جال سے نکل آئیں گے تاہم اس وقت ہم الجھا دیئے گئے ہیں۔ یہاں سے لے کر وہاں تک اس لابی نے اپنے شکنجے گاڑھے ہوئے ہیں جو مغرب کی پالی ہوئی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ پرانا بندوبست اچھا تھا۔ یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہم بہت زیادہ غلط راستے پر نہیں تھے میں تو سیدھا سادہ پاکستانی ہوں۔ ہمیں اب صرف یہ بتایا جارہا ہے کہ اپنی زندگیوں سے ایک بار پھر دو تین سال نکال دو، آگے کے مرحلے آسان ہوں گے۔ ہم کب تک اپنی زندگیاں یوں کترتے رہیں گے۔ دوسرا مسئلہ جس سے مجھے ڈر لگتا ہے، وہ تحریک انصاف کا رویہ ہے۔ خیر پختونخوا میں ان کی حکومت رہی ہے، وہاں نصف سے زیادہ وقت انہوں نے قانون سازی اور منصوبہ بندی میں گزار دیا۔ پھر کام شروع کیا اوراپنے کام کے کھنڈرات چھوڑ کر رخصت ہو گئے۔ ترقی کا عمل روک کر آپ منصوبہ سازی کیوں کرتے ہیں جو کام ہورہے ہیں، انہیں تیزی سے ختم کیجئے اور آئندہ کے کاموں پر غور و فکر کرتے رہیے۔ وگرنہ عالمی ادارے تو کہہ رہے ہیں کہ آپ کے ہاں ترقی معکوس ہو گی۔ کہاں سے بنیں گے پچاس لاکھ گھر اور کہاں سے آئیں گے ایک کروڑ ملازمین۔ خدا کے لیے ادھر ادھر سے دوچار محب وطن، غیرجذباتی ماہرین کو تلاش کیجئے کیونکہ الزام اس ٹیم پر نہیں آتا، قیادت پر آئے گا۔ خدا کرے ایسا نہ ہو۔ یہ ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ سیاست نہیں ہے، سلامتی کا سوال ہے۔ جب بھی ہمارے ہاں تبدیلی آتی ہے ہم چار چھ سال پیچھے چلے جاتے ہیں۔ یہی مرضی میرے صیاد کی ہے۔