بات ہورہی تھی مریم اور بلاول کے اس شور کی جو وہ عمران خان کے خلاف برپا کررہے ہیں۔ جھوٹ کا طومار اور پھر اس کی بھرمار۔ اس آگ کو ہوا دے رہا ہے، ریٹنگ کا متلاشی میڈیا۔ کبھی ریکوڈک، پھر برطانیہ کا ’’دی میل‘‘ اور پھر شہباز شریف کے منجمد اثاثے۔ ویسے ویڈیو سکینڈل سب سے زیادہ ریٹنگ لے رہا ہے۔ اعلیٰ عدالت اگرچہ نوٹس لے چکی ہے مگر انگریزی محاورے کے مطابق اس الماری میں بہت سے ڈھانچے ابھی باقی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہماری اشرافیہ ان ڈھانچوں کا برآمد ہونا Afford کر پائے گی؟ مجھے خدشہ ہے کہ پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ اس کی متحمل نہ ہوپائے گی۔ ویڈیو سکینڈل کا پنڈورا باکس مسلم لیگ (ن) کو فائدہ کم دیتا اور نقصان زیادہ دیتا نظر آرہا ہے۔ بنیادی طور پر پاکستان روز اول سے ہی اشرافیہ کے ہاتھوں اغوا ہوچکا ہے۔ سیاست کی زبان میں اسے انگریزی میں Oligarchy بھی کہتے ہیں اور Elite Capture بھی۔ آپ قیام پاکستان سے پہلے کے مسلمان رہنمائوں میں سے صرف تین کی تقاریر اور تحریریں سن لیں او رپڑھ لیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد… سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور علامہ مشرقی۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ کسی ٹائم مشین کے ذریعے پچاس، ستر سال کے بعد کے پاکستان کو دیکھ رہے تھے۔ عوام کی حالت کیا ہوگی؟ بالادست طبقات کون سے ہوں گے؟ معاشی طور پر کون سا طبقہ کیسے سارا شہد چاٹ لے گا؟ طاقت کی لگامیں کون سے طبقات تھامیں گے؟ صنعت کار اور مذہبی طبقات پاکستان کے ساتھ کیا کریں گے؟ سیاست دان کس طبقے سے ہوں گے؟ فوج اور بیوروکریسی کا کردار کیا ہوگا؟ … ان سب کی جھلکیاں نظر آتی ہیں، ان کی باتوں اور بیانوں میں۔ پھر 1947ء آیا … پھر قائد اعظم … لیاقت علی خان اور پھر وہی اقتدار کا میوزیکل کھیل … غلام محمد سے سکندر مرزا تک اور سکندر مرزا سے ایوب خان تک … ملک دو ٹکڑے ہوجاتا ہے مگر بعض طبقات اپنے قبضے کو ٹوٹنے نہیں دیتے۔ 71ء کے بعد بھٹو پاکستان کو نیا پاکستان بنانے کی کوشش کرتا ہے اور ضیاء اسے ہٹا کر مزید نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دیتا ہے۔ اس نئے پاکستان میں دو نئے کردار ابھرتے ہیں۔ نواز شریف اور بے نظیر۔ حسب روایت پھر مشرف آتا ہے اور پھر وہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)۔ درمیان میں قاف بھی آتی ہے مگر پاکستان وہی رہتا ہے۔ ضیاء الحق کا نیا پاکستان جس کا مشرف بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پھر خیال آتا ہے کہ 85ء کی اسمبلی سے جنم لینے والا سیاستدان اس ملک کی تقدیر کو تباہی سے دوچار کرچکا ہے اور مزید کر رہا ہے۔ بے نظیر اور نواز شریف برینڈ سیاست کو ڈسٹر سے مٹا کر وائٹ بورڈ کو بالکل صاف کرکے نئے تصویریں بنائی جائیں۔ نئے کردار تخلیق کیے جائیں۔ کرپشن سے پاک سیاسی Elite کی بھرتی کی جائے۔ مگر سکرپٹ لکھنے والے کسی بھی سوسائٹی کو گراس روٹ سے بدلنے پر قادر نہیں ہوتے۔ سیاسی برینڈ مختلف ہوسکتے ہیں۔ نون … جنون اور جیالے ٹائپ مگر سیاسی اشرافیہ میں اخلاقی دیوالیہ پن یکساں طور پر سرائیت کرچکا ہے۔ سیاست ایک مہنگا پیشہ بن چکی ہے۔ ٹکٹ لینے والا اور الیکشن لڑنے والا … وہی ہوسکتاہے جو کسی اور ذریعے سے اربوں نہیں تو کروڑوں ضرور کما چکا ہو۔ اس میں پارٹی اور ٹکٹ برینڈ کی کوئی قید نہیں۔ آپ درست کنکشن کی چابی سے تالہ کھول کر ایک خاص امائونٹ پارٹی کے فنڈ میں ڈالیں، ٹکٹ آٹو میٹک طریقے سے برآمد ہوجائے گا۔ آپ کس طرح اس معاشرے کے گند سے پاک ایک صاف ستھری نئی پارٹی کے ٹکٹ ان دولت مندوں کو دے سکتے ہیں جن کے دونوں ہاتھ پاک ہوں؟ ایسے میں صرف اعظم سواتی ہوتے ہیں اور خسرو بختیار … لکیر کی اس جانب … نواز شریف ہوتے ہیں اور میاں شہباز … چودھری پرویز الٰہی ہوتے ہیں اور زرداری۔ ایسے میں بلاول اور مریم دونوں جھوٹ بولتے ہیں۔ کبھی پورا جھوٹ … کبھی آدھا سچ … کبھی کوارٹر ڈس انفارمیشن۔ حالانکہ اوجھل اور ظاہر سبھی جانتے ہیں کہ ان دو پارٹیوں نے اس ملک کے ساتھ وہ کیا ہے جو پنجابی اور ہندی فلموں میں مافیا والے کچی بستیوں کے مکینوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سندھ اور پنجاب میں سیاسی قبضوں کے باوجود بعض حلقوں کی نظر میں وہ سیاسی مافیاز ہیں جو اس ملک کے حقیقی ولن ہیں۔ Movers اور Shakers کے مطابق اگر ان مافیاز سے پاکستان پاک ہوجائے تو ایک نیا پاکستان بن سکتا ہے۔ مگر بھلا ہو اس میڈیا کا جو اِن کو گلیمرائز کرتا ہے۔ ان کے الٹے اور سیدھے بیانات کو نیوز اور ویوز کا حصہ بناتا ہے۔ قابل داد ہے وہ سیاسی کلچر جس میں ہر جماعت کے ٹکٹ پر وہی چہرے سامنے آتے ہیں جو مستقلاً ہماری جمہوریت کا حصہ ہیں۔ تحریک انصاف کا بھی یہی المیہ ہے۔ جیسے تیسے وہ اقتدار میں تو آگئی مگر اس سے مشکل فیصلے کروائے جارہے ہیں۔ جب اس کے خلاف غصہ عروج پر پہنچے گا تو اس کا اینٹی کلائمکس کیا ہوگا؟ اس کے بعد کے بندوبست میں اشرافیہ کے کون کون سے طبقات کو کیا کیا نمائندگی دی جائے گی؟ (ختم شد)