چوری اور سینہ زوری کامحاورہ شاید ایسی ہی صورتحال کے لیے بنا تھا ۔ جعلی بے نظیر مسلم لیگ ن کو وراثت میں لے اڑی اور چچا اور بیچارے کو اُسکا ساتھ دینا پڑ رہا ہے ۔ جج ارشد ملک پر دبائو تھا ۔۔ اوکے ۔۔ اسے ٹپ کیا جا رہا تھا ۔۔ جی درست۔ مگر دو غلط آپس میں ضرب کھائیںتو جواب درست کیسے آسکتا ہے ۔ میاں نواز شریف ۔۔۔ ان کے برادر خورد اور آل شریف بمعہ مریم ، حسین، حسن پلس حمزہ اور سلمان نے جو کچھ اس ملک کے ساتھ کیا اس کے بعد ان ہی کا مشہور زمانہ جملہ انہی کی نذر ہے "کوئی شرم ہوتی ہے ۔۔ کوئی حیا ہوتی ہے"۔ وزیراعظم تو وہی کر رہے جو ان حالات میں کیا جا سکتا ہے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس سے بہتر پرفارم کیا جا سکتا تھا؟ مریم اور بلاول جو کہہ رہے ہیں کیا وہ پورا سچ ہے یا ادھورا سچ ؟ آدھا سچ ۔۔۔ ہمیشہ پورے جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔ بلاول اور مریم کا بیانیہ سرجیکل سچ ہے یا پھر سرجیکل جھوٹ ۔ یہ درست ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے بعض حلقوں نے کچھ مخصوص حمایت فراہم کی ۔ یہ بھی سچ ہے کہ چین کی قربت اور امریکی شکنجے سے مکتی ہماری اسٹبلشمنٹ کا بنیادی مقصد ہے ۔ یہ بھی غلط نہیں کہ نواز شریف پاکستان کے قومی مفاد سے بھی زیادہ بڑے ہو گئے تھے ۔ وہ سعودی گورننس اور بادشاہت سے اس قدر متاثر تھے کہ الیکشن ،پارلیمنٹ اور جمہوریت کو محض تکلفات سمجھتے تھے ۔ بس ذرا الیکشن لڑو ، عوام میں جائو ، انہیں لالی پوپ دو ، الیکشن جیتو اور وزیر اعظم ہائوس پہنچ کر ان سب کو فارغ کر دو ۔ پھر اپنے مخصوص حلقے میں رہو ۔ وہیں سے فیصلے کرو اور اگر انہیں کائونٹر چیک کرنے کی کوشش کی جائے تو فوراً جمہوریت کو خطرے میں ڈالنے کا اعلان کر دیتے ہیں ۔ اگر انسان کا مزاج ہی اس کا مقدر ہوتا ہے تو پھر نواز شریف کا ماضی اور حال ان کے مستقبل اور حال کا تعین کر رہا ہے ۔ ان کے فیصلے اپنے نتائج پیدا کر رہے ہیں ۔ غلام اسحاق خان سے فاروق لغار ی تک اور پھر جنرل آصف نواز سے جہانگیر کرامت تک اور پھر جنرل مشرف سے کسی اور جنرل تک ۔ابھی جسٹس سجاد شاہ اور ان کے کچھ پیٹی بھائیوں کا ذکر نہیں کر رہا سوائے ان کے افتخار چوہدری سے در پردہ فلرٹ تک ۔میاں نواز شریف ہمیشہ خود ہی کسی ادارے کے سربراہ کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر اُسے کٹ ٹو سائز کرنے کی جبلی کوششیں بھی ۔ آپ کو سرل المیڈا والا تھرلنگ Episodeتو یاد ہوگا اور مریم نوازکے ٹویٹس بھی ۔ جنرل آصف غفور کے ٹویٹ واپس لینے کا واقعہ زیادہ پرانی بات نہیں ۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا جاتی عمرہ کا آسمانی دورہ بھی خواص اور عام کے سامنے تھا ۔ بھارت کے لوہے کے صنعت کار جندال سے محبتیں اور پھر بھارت کے لیے افغانستان تک تجارت کی سہولت کاری کی کوشش ۔ پھر حسن اور حسین کا طلسمی سرمایہ اور کراماتی کاروبار ۔ ایسے میں مریم کا مشہور زمانہ ٹویٹ "روک سکو تو روک لو"۔ کیا یہ وہی مریم ہے جو اب خاندانی ورثے پر مبنی جماعت میں چچا کوروڈ کٹ مار رہی ہے ۔ کیا یہ ایک انقلابی ، سوشلسٹ مریم نواز ہے ۔ ، نہ سیاسی تعلیم نہ تربیت زیادہ سے زیادہ پرویز رشید اور عرفان صدیقی کی کمپنی کیا اُسے انقلابی بنا سکتی ہیں ؟ ایک تاجر خاندان کی چشم و چراغ پاکستان کا لینن اور مائو بننا چاہتی ہے ۔ اس سونے کے ساتھ ایک سہاگہ بھی ہے جس کا نام مریم اورنگ زیب ہے جسے سوشل میڈیا اینگری برڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ یاد آتا ہے پھر شہباز شریف کا زلفی بھٹو کی کاپی میں مائیک گرانا اور جالب کی طرح میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا کی دھن پر سر دھننا ۔ سیاسی لطیفے نہیں تو اور کیا ہیں ۔ جیسے حمزہ شہباز پاکستان کے امیر ترین انقلابی ہیں ۔ کچھ ایسا ہی حال ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلاول زرداری کا ہے ۔ نانا اور ماں بڑے لوگ تھے مگر کوئی نہیںبھولا کہ وہ آصف زرداری کے فرزند ہیں ۔ ان کی نظریاتی جماعت کا ناریل توڑو تو اندر سے آصف زرداری ، سراج درانی ، شرجیل میمن اور فریال تالپور جیسے کھوپے برآمد ہوتے ہیں ۔ بلاول کو خود بولنے سے زیادہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کا نواسے اور بے نظیر کا بیٹا ہی نہیں کرپشن کے بھاری ورثے کا وارث بھی ہے ۔ بلاول اور مریم ایک ایک صوبے کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ وہ پنجاب کی رانی ہے یہ سندھ کا راجا ۔کیا ملک کو ان دونوںکی جمہوریت کے حوالے کر دیا جائے۔؟ جمہوریت نہ ان کے اندر ہے نہ ان کی جماعتوں میں ہے ۔ الیکشن اور جمہوریت ان کے لیے Toolsہیں لوٹ مار کے ۔ دوسری جانب عوام ہیں اورعوام کے دانشور جنہیں جمہوریت کا ہر روپ سہانا لگتا ہے ۔ اس وقت پاکستان کے سامنے cross Roadsہیں اور اسٹبلشمنٹ کے سامنے بھی ۔ عمران کے لیے بھی اور عوام کے لیے بھی ۔ عمران جو غیر مقبول فیصلے کر رہا ہے ان کا سیاسی ردعمل آئے گا ۔ عالمی ڈونر ادارے پاکستان اور چین کی بڑھتی ہوئی اکنامک قربت سے خائف ہیں ۔ امریکہ ان کا پشت پناہ ہے ۔ امریکہ کے پیچھے بھارت اور اسرائیل ہیں ، افغانستان بھی پاکستان کو دوست نہیں سمجھتا ۔ عمران اور ٹرمپ کی ملاقات افغان مسئلے کے سیاسی حل کے پس منظر میں ہو رہی ہے۔ عمران اور پاکستان کی پالیسی میکر ز یہ سمجھتے ہیں کہ عمران اگر ٹرمپ سے مسئلہ افغانستان کے حل میں مدد کے طالب امریکہ سے اچھی ڈیل کر لے تو شاید اس معاشی دبائو سے افاقے کی کوئی صورت نکل آئے۔(جاری ہے )