دنیا میں مسلمانوں کی مظلومیت کی ایک دلدوز مثال کشمیرہے جہاں 5اگست 2019سے 90 لاکھ کشمیری مسلمان لگاتارکئی ماہ تک بھارتی قابض فوج کے کڑے محاصرے میں رہے لیکن بھارت کی اس جارحیت کے باوجودمظلوم کشمیر ی عوام بھارت کے سامنے سپراندازنہیں ہوئے ۔مظلومیت کی دوسری المناک مثال فلسطین ہے جہاں نوجوانان فلسطین بیت المقدس کی بازیابی اور اپنی آزادی کے لئے پوری حمیت کے ساتھ سینہ سپر ہیں ۔اس کے علاوہ دنیا کے کئی گوشوں میں لاکھوں مسلمان بدترین مظالم کے شکار ہیں ، جنہیںخصوصی کیمپوں میں جانوروں کی طرح بندکرکے تمام انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔غرض امہ کے جسم پر رستے ہوئے صرف ایک دو زخم نہیں ب،لکہ پورا جسم چھلنی ہے ۔ مظالم کا شکار مسلمانوں کی نظریں خداکی نصرت کے بعد صرف اور صرف ملت اسلامیہ پر ہیں لیکن ملت پرمسلط حکمرانوں نے ملت کواپنی ساحری سے سلا رکھاہے ۔ کشمیرسے فلسطین تک مظلوم، نہتے اوربے بس کلمہ گو جدید ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی اوربھارتی افواج کاغلیلوں اورپتھروں سے مقابلہ کرتے ہوئے سوئی ہوئی بے حس مسلم امہ کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ظالم پوری طرح یقین کرچکاہے کہ کرہ ارض پرکوئی امت مسلمہ نہیں ، کوئی عالم اسلام نہیں ، امت مسلمہ ہوتی اور عالم اسلام ہوتا تو وہ کشمیری،فلسطینی مظلوم مسلمانوں کے لئے کم ازکم زوردارصدابلندکرتا۔ ایک بہت بڑی عالمی سازش اورمسلمانوں کی جہالت اورانکی نادانی کے باعث مسلمانوں کاشیرازہ بکھراپڑا ہے اور امت مسلمہ ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے، سب کو اپنے مفادات عزیز ہیں، کوئی آگے بڑھ کر اپنے بھائی کی دلجوئی کرنے کو رضامند نہیں ہے، کوئی مشکل وقت میں ظالموں کے سامنے مظلوموں کی حمایت کو تیار نہیں ہے۔ہر جگہ مسلمانوں کی گردنیں کٹ رہی ہیں، نسلیں ختم ہو رہی ہیں، اغیارکی جارحانہ حملوں میں لوگ معذور ہو رہے ہیں،مال کا نقصان ہو رہا ہے، معیشت تباہ ہو رہی ہے، انکی مسلم قومیت معدوم ہوتی جا رہی ہے، لیکن پھر مسلمان ممالک کے حکمرانوں میں سے کسی کو ہوش نہیں ہے۔ وہ کہ جنہیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنے کا حکم ملا تھا وہ کہ جنہیں ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا، وہ کہ جنہیں مظلوم کا ساتھ دینے کی تلقین کی گئی ، وہ کہ جنہیں بتایا گیا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے معصوم کلمہ گو شہید ہو رہے ہیں، جوانوں کو کلمہ حق پر قائم رہنے کی سزا دی جا رہی ہے، عزتیں پامال ہو رہی ہیں۔ شہیدوں کی تعداد ہے کہ ہر روز بڑھتی ہی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود کسی کے ضمیر نے ملامت کی نہ کسی کا ضمیر جاگا، لیکن وہ اپنے ہی برادران ملت کے خلاف اعدائے دین مددکی اوران کی نسل کشی پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، ہرطرف مظلوم مسلمانوں کی دلدوز چیخیں ہیں لیکن مجال ہے کہ مسلم حکمرانوں کی کے مردہ ضمیرزندہ ہو جائیں۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ کوئی خودی اورخوداری نہیں بلکہ یہ بدتریں غلامی ہے کہ برادران ملت کوچھوڑ کراغیارکو دوست بنایاجائے، چاہے اس دوستی کاٹائٹل تجارت اورکاروباری منفعت ہی کیوں نہ ہو۔ یہ اعمالِ بد کی ہے پاداش ورنہ! کہیں شیر بھی جوتے جاتے ہیں ہل میں ۔سب حال مست مال مست ہیں۔ یاد رکھیں آج یہ وقت کشمیریوں اورفلسطینیوںپر ہے کل کسی اور پر بھی ایسا کٹھن وقت آ سکتا ہے۔ اگر آج ان مظلوموں کی مدد کے لیے مسلم دنیانے اپنا کردار ادا نہ کیا تو کل کلاں یہ آگ کسی کوبھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ آج مظلوم و محصور کشمیری مسلم دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن پاکستان، ترکی اور ملیشیا کو چھوڑ کر سفارتی محاذ پربھی کوئی ان کی بات نہیں کر رہا۔ عالمی اداروں، ا نسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی کشمیریوں اور فلسطینی عوام کے مصائب پر چپ سادھ رکھی ہے ، کوئی ان کا پرسان حال نہیں ، غیروں سے کیا گلا، جب اپنے ہی روگردانی کر رہے ہوں ۔ آخروجہ کیاہے کیوں سب کوسانپ سونگھ گیا۔ مسلمان ممالک میں عامتہ الناس کایہ موقف ہے کہ ان پرمسلط حکمران اپنے اقتدارکوتحفظ دینے کے لئے مظلوم مسلمانوں کے خون کا سودا کررہے ہیں اوراپنے کاروباراورتجارت کومظلوم مسلمانوں کے لہوپر ترجیح دے رہے ہیں، کئی مسلم ممالک کے حکمران ایسے بھی ہیں کہ جنہوںنے اعدائے دین کے ساتھ مل کر اپنے ہی اہل وطن اوربرادران ملت کاقتل عام کردیا۔ مگریادرکھیں تاریخ میں جہاں کفار کا ظلم وستم کی خونین داستانوں کے ابواب لکھے جائیں گے وہیں مسلمان ممالک کے ایسے حکمرانوں کی مظلوم مسلمانوں کے تئیں لاتعلقی اوربے مروتی ایک سیاہ باب کے طور پر رقم ہو گی۔ آج کا مسلمان کیوں در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے، مسلم امہ انتشار یا شکار کیوں ہے ، یہ صورتحال حقیقت کی آئینہ دار ہے کہ مسلمان ممالک باہمی اورمملکتی سطح پرکوئی کسی کا ہمرکاب نہیں۔مسلم دنیا کے بااثر، دولت منداورمال دار ممالک کے معاشی تعلقات امریکہ اورانڈیا کے کھونٹے سے بندھے ہوئے ہیں اور یہاں اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی بند ی اور بھائی چارے کے تصورات کواب ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ ریاستی اورحکومتوں کی سطح پرمسلم امہ کے تصور کا بھانڈا اس وقت پھوٹا کہ جب ستمبر 2019ء کے اواخرمیں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میںپاکستان کوکشمیرکے حوالے سے ایک قرار داد لانے کیلئے محض18 ممالک کی حمایت درکار تھی لیکن اسے عرب و عجم کے 57ممالک میں سے مطلوبہ تعدادمیسرنہیں آسکی ۔یہ اس بات کی طرف بلیغ اشارہ ہے کہ مسلم ممالک ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا تو دور کی بات ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے بھی روادار نہیں۔عرب امریکہ اورعرب انڈیا تعلقات نے برادران ملت کے تصور کاخاتمہ کر دیا اور ان تعلقات کی کرشمہ سازی ہے کہ اخوت اسلامی پر تجارتی مفادات اور مالی منفعت نے فوقیت حاصل کرلی ہے اور یہ صورتحال امت مسلمہ کے اتحاد اور اتفاق کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔