پچھلے سال واشنگٹن پوسٹ نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مترجموں کی حالت زار بیان کرتے ہوئے تحریر کیا کہ جب ٹرمپ اپنے موڈمیں آکر گالی گلوچ اور لعنت و ملامت والے الفاظ کی ادائیگی کرتے ہیں، تو مترجموں کی جان پر آتی ہے۔ امریکی صدر نے 2018 میں جب کئی افریقی ممالک کو انگریزی میں ’’شٹ ہول ’’ ممالک بتایا تو ان کے مترجموں کے ہوش اڑ گئے۔ 2000ء میں جب امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ شمالی کوریا کے دورہ پر گئیں، تو یہ کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار کا کئی دہائیوں کے بعد پہلا دورہ تھا۔ پہلی ہی غیر رسمی ملاقات میں شمالی کوریا کے حکام نے ان کے مترجم ٹونگ کم کے تلفظ پر اعتراض کیا ۔ ان کو بتایا گیا کہ ان کا مترجم جنوبی کوریائی لہجہ میں ترجمہ کی ادائیگی کرتا ہے۔بس رات بھر کم نے لہجہ درست کرنے کی پریکٹس کی او ر اسکے بعد ہی اگلے روز شمالی کوریائی حکام نے دوطرفہ بات چیت جاری رکھنے پر حامی بھر لی۔ اقوام متحدہ مترجموں کو بھرتی کرنے کے معاملے میں خاصی فیاض ہے۔ جنرل اسمبلی کے سیشن کے دوران اس کے اپنے مترجم کم پڑتے ہیں اور اس دوران کئی یونیورسٹیوں کے طالب علموں اور اساتذہ کو عارضی بھرتی کیا جاتا ہے۔ مگر یہ مترجم بھی کیا کریں ، جب 1960میں کیوبا کے مرد آہن فیڈل کاسٹرو کی چار گھنٹے کی تقریر ہو یا 1957میں بھارتی مندوب وی کے کرشنا مینن کی آٹھ گھنٹے کی مسلسل سمع خراشی ہو۔ اسی طرح2009میں لیبیا کے حکمران کرنل معمر قذافی نے تقریباً دو گھنٹے کی تقریر کی۔ ان کی تقریر ختم ہوتے ہی ان کے مترجم فواد زیلٹنی بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ تقریر ختم ہونے سے قبل قذافی نے معذرت کی ،کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اسلئے انکو تقریر مختصر کرنی پڑی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ خبروں کو لیک کرنے کیلئے ذرائع ابلاغ کی رسائی ابھی تک کسی مترجم تک نہیں ہوسکی ہے۔2017میں جب پولینڈ کی حکومت نے سابق صدر لیچ کاکزیسکی کے طیارہ حادثہ میں ہلاکت کی جانچ دوبارہ شروع کہ، تو طے ہوا کہ ان کے مترجم فیٹاس ڈوکاکزوسکی کو بھی شامل تفتش کرکے اس سے ہلاک ہونے والے صدر کی روسی صدر ولادئمیر پوتن کے ساتھ ہوئی ون ٹو ون ملاقات کی تفصیلات حاصل کی جائے۔ کیونکہ طیارہ کا حادثہ روسی فضاوٗں میں رونما ہوا تھا۔ اس سے قبل وہ ماسکو کے دورہ پر تھے۔ مگر مترجم نے انکار کرکے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف کانفرنس آف انٹرپرٹرز کے ضابط اخلاق کا حوالہ دیا ، جس میں مترجموں کو انتہائی رازداری برتنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ پچھلے سال امریکی کانگریس نے بھی ٹرمپ کی ملامت کی تحریک کے دوران ان کی روسی زبان کی مترجم کو کانگریس میں پیش ہونے کیلئے کہا تھا، تاکہ ٹرمپ اور پوتین کے درمیان ہونے والی ملاقات کی تفصیلات معلوم کی جائیں۔ مگر مترجم نے منع کردیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہل سنکی میں ون ٹو ون ملاقات ختم ہوتے ہی ، ٹرمپ نے مترجم کے ہاتھ سے اسکا نوٹ پیڈ چھین کر اسکے پرزے پرزے کر دیے تھے۔ کئی لیڈران تو دوسری زبان کے جانتے ہوئے بھی مترجم کا سہارا لیتے ہیں ، اس سے انکو سوالوں کا جواب دینے میں وقت ملتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 2007میں نئی دہلی میں روس، بھارت اور چین کے وزراء خارجہ کی سہ فریقی ملاقات کے اختتام پر ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں چینی وزیر خارجہ لی زہاوزنگ کی مترجم بار بار غلط ٹرانسلیشن کررہی تھی، جس پر لی اس کو بار بار ٹو ک کر خود ہی اس کی اصلاح کر رہے تھے۔ پریس کانفرنس خاصی طویل ہو رہی تھی۔ روس وزیر خارجہ سرگئی لاواروف کو کہیں اور لے جانے کیلئے جہاز انتظار کر رہا تھا۔ آخر زچ ہوکر لی نے پہلے چینی زبان میں اور پھر خود ہی انگریزی میں اپنا بیان پڑا اور پھر سوالوں کے جوابات دئے۔ تیزی کے ساتھ نوٹس لینے کے بعد ان کو پڑھنے اور ٹیکسٹ میں ڈھالنا بھی کسی وقت خاصل مشکل ہوتا ہے۔ کہتے ہی کہ جب علامہ اقبال 1932 میں پیرس وارد ہوئے، تو ان کے دوست سردار امراوٗ سنگھ ، جو مشہور آرٹسٹ امرتا شیر گل کے والد ہیں، اور دیگر رفقاء نے ا ن کی ملاقات مشہور فرانسیسی فلاسفر ہنری برگساں سے کروانے کا بندوبست کروایا تھا۔ اس سلسلے میں ایک بھارتی نژاد فرانسیسی سکھ کی خدمات مستعار لی گئی تھیں۔ مشرق اور مغرب کے دو عظیم فلسفیوں کی اس میٹنگ کی روداد جاننے کیلئے سبھی بے تاب تھے اور لگتا تھا کہ یہ میٹنگ ایک تاریخ بن کر رہ جائیگی۔ خود علامہ اقبال کے مطابق مترجم سردارجی میٹنگ کے دوران زور و شور سے نوٹس لے رہے تھے، جس کی وجہ سے اقبال نے بھی اپنی توجہ گفتگو پر مرکوز رکھی اور سوچا کہ بعد میں سردارجی سے نوٹس حاصل کرلوں گا۔ مگر جب ملاقات ختم ہوئی اور سردارجی کو ان نوٹس کا ٹیکسٹ بنانے کیلئے کہا گیا ، وہ اپنی تحریرہی نہیں پڑھ پا رہے تھے۔ خیر ایک پوری تاریخ ہی ضائع ہوگئی۔ پاکستانی سول سرونٹ قدرت اللہ شہاب نے اپنی سوانح حیات میں ترکی کے صدر جمال بیار کے دورہ پاکستان کا حال بیان کیا ہے۔ گورنر جنرل غلام محمد فالج کے مریض تھے، انکی باتیں ، چند افراد کے علاوہ کوئی سمجھ نہیں پاتا تھا۔ ون ٹو ون ملاقات میں تو ترکی کے صدر کے مترجم کی ہوا اڑ گئی، کوئی لفظ ہی اس کے پلے نہیں پڑ رہا تھا ۔ حیران و پریشان ہوکر وہ کمرے ہی بھاگ کھڑا ہوگیا۔ شہاب کے مطابق دونوں سربراہان مملکت 70منٹ تک بات چیت کرتے رہے۔ دور سے نظر آرہا تھا کہ غلام محمد مسلسل بول رہے تھے، اور ترک صدر بیاراشاروں میں جواب دے رہے تھے۔ مترجم کی عدم موجودگی میں اس یک طرفہ مکالمہ کی مثال شاید دنیا کی سفارتی اور سیاسی تاریخ میں کہیں بھی نہیں ملے گی۔ ٭٭٭٭٭