عالمی بنک نے کہا ہے کہ 2000ء سے 2015ء کے دوران غربت کم کرنے کے لیے جن 15ممالک نے انقلابی اقدامات کئے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔دنیا کے 114ممالک میں انتہائی غربت کی شرح میں سالانہ کمی کے اقدامات کے حوالے سے پاکستان 14ویں نمبر پر آگیا ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر حل کر کے جنوبی ایشیا میں ماحولیاتی تبدیلی اور غربت کے خلاف مل کر جدوجہد کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ غربت، مہنگائی اور کساد بازاری نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافے نے بھی مہنگائی کی شرح میں اضافہ کیا ہے۔ ایف بی آر کے بے جا ٹیکس نوٹس سے بھی سرمایہ دار سہما ہوا ہے۔ صرف کرپشن پر قابو پانا ہی سب کچھ نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عام آدمی کو ریلیف فراہم کر کے اس کے لیے آسانیاں پیدا کرنا بھی ضروری ہے، جسمیں موجودہ حکومت بظاہر ناکام نظر آتی ہے۔ اگر بے روزگاری اس طرح پھیلتی رہی ، کارخانے بند ہوتے رہے اور سرمایہ دار یونہی ہجرتیں کرتے رہے تو پھر معاشی حالات کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستا ن غربت پر قابو پانے میں کامیاب ہوا ہے لیکن زمینی حقائق اس کے بر عکس ہیں ۔ غربت ‘مہنگائی‘ بے روزگاری ‘ لوڈشیڈنگ اور کرپشن کے ستائے عوام نے پی ٹی آئی سے امیدیں وابستہ کیں تھیں۔ یہ توقعات اس حد تک بڑھیں کہ عوام اپنے گوناں گوں مسائل کے فوری حل کے لئے متمنی نظر آئے۔ تحریک انصاف کی ابتدائی پالیسیوں سے مہنگائی کے طوفان اٹھنے شروع ہو چکے ہیں۔ چہ جائیکہ حکومت عوام کو سہولیات فراہم کر کے مہنگائی کو کنٹرول کرتی، الٹا بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے نیپرا میں درخواست دائر کر کے 17ارب 20کروڑ روپے کا صارفین پر بوجھ ڈالنے کی استدعا کی ہے حالانکہ گزشتہ دو ماہ سے لگاتار فیول ایڈجسٹمنٹ کی مدمیں فی یونٹ اضافہ کیا جا رہا ہے ، جس سے پہلے ہی غریب آدمی کو کئی وولٹ کے جھٹکے لگ چکے ہیں۔ رہی سہی کسر ٹماٹر‘ آٹے اور سبزیوں کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں نے نکال دی ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنی پالیسیوں کی درست سمت مقرر کر کے غریب آدمی کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے صرف 100دن کا وقت مانگا تھا لیکن ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود وہ عوامی مشکلات کا کوئی حل سامنے لا سکی نہ ہی مہنگائی کنٹرول کرنے میں ابھی تک کامیاب ہو سکی ہے۔ ایسی صورتحال کسی بھی اپوزیشن جماعت کے لئے سڑکوں پر آنے کے لئے کافی موزوں ہوتی ہے، مگر بڑی اپوزیشن جماعتیں بوجوہ فوری طور پر سڑکوں پر آنے سے گریز کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں، اس لحاظ سے اپوزیشن صفوں میں سے حکومت کے لئے سکھ چین ہی کا عندیہ مل رہا ہے اس کے باوجود حکومت کا غریب آدمی کو ریلیف فراہم نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ وزیر اعظم اگر صرف اپنی کابینہ اور بیورو کریسی پر تکیہ کئے بیٹھے رہے، ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ساتھ ان کے ووٹرز کے دلوں میں بداعتمادی پیدا ہو گی اور وہ عام آدمی اور میڈیا کے سامنے حکومت کا دفاع کرنے سے قاصر نظر آئیں گے۔ پی ٹی آئی قائدین کو اپنے لئے اسے لمحہ فکریہ سمجھنا چاہیے۔ سردست یوں لگتا ہے کہ حکومت کی معاشی ٹیم عوام کو وہ ریلیف فراہم کرنے میں یکسر ناکام رہی ہے جس کی عوام نے ان سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ مشیر خزانہ نے زندگی بھر بازار یا سبزمنڈی کا رخ نہیں کیا۔ وہ عوام کو ٹماٹر کے ریٹ بتا کر اپنا ہی مذاق اڑا رہے ہیں۔ حکمران طبقے کا یہ معاملہ مشترکہ ہے کہ انہیں عام ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتوں کا درست ادراک بھی نہیں۔ پیپلزپارٹی کے دور میں جب ٹماٹر مہنگا ہوا تو ایک وفاقی وزیر نے کہا کہ عوام ٹماٹر کی بجائے دہی استعمال کریں۔ سابق حکومت نے ٹماٹر کی قلت دور کرنے کا کوئی منصوبہ تشکیل دیا نہ ہی موجودہ حکومت اس سلسلے میں کوئی پیش بندی کر رہی ہے۔ حکومتیں موسمی بے اعتنائی کا بہانہ کر کے صورت حال سے بری الذمہ نہیں ہو سکتیں۔ اس لئے وزیر اعظم اشیاء ضروریہ کی قیمتوں کا تعین کرکے پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو متحرک کریں تاکہ غریب آدمی کو ریلیف مل سکے۔ عمران خان بار بار اپنی تقاریر میں جنوبی ایشیاء میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل جل کر غربت کے خاتمے کے لئے کام کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ پوری دنیا اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر اس خطے سے غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے نہ ہی پائیدار امن ممکن ہے۔ اس کے باوجود عالمی برادری مودی سرکار پردبائو بڑھانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کو انہیں حالات میں اکیلے ہی بھنور میں پھنسی کشتی کو پار لے کر جانا ہے۔ لہٰذا وہ مودی سرکاراور عالمی برادری سے ایسی امیدیں وابستہ کرنا چھوڑ دیںاور اپنی تمام تر توجہ ملک کے معاشی حالات پر مرکوز رکھ کرعوام کو ریلیف فراہم کرنے اور مہنگائی کنٹرول کرنے پر دیں۔ ٹیکس نیٹ کو توسیع دے کردولت مندوں سے پیسے اکٹھے کر کے غربا کی مدد کی جائے ۔دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک ایسی ہی پالیسیوں پر کاربند ہیں ۔ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی بجائے کمی کر کے کارخانوں، فیکٹریوں اور چھوٹے کاروباری حضرات کو ریلیف دیا جائے۔ چھوٹے کاشتکاروں کو سہولیات فراہم کر کے سبزیاں اگانے کی ترغیب دیںتاکہ ہم اشیاء ضروریہ کی پیداوار میں خود کفیل ہو کر عوام کو سستے داموں فراہم کر سکیں ۔