پاکستان کی زرعی زمین پر زیادہ تر گندم اور کپاس کی فصلیںکاشت کی جاتی ہیں۔ ہمارے اکثر زمین داروں اور کسانوں کے ہاں یہ عام رواج ہے کہ وہ سال میں صرف دو طرح کی فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ کبھی کسی نے یہ سوچنا ہی گوارا نہیں کیا کہ ہم ایک ایکڑ سے دو سے تین اور تین سے چار طرح کی فصلیں کاشت کرسکتے ہیں۔ جس سے آمدنی میں نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ کئی طرح کی فصلوں کی کاشتسے زمین میں نائٹروجن، یوریا اور دیگر قدرتی طاقتور عناصر میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی سے بھارتی سمندر کے پانی کی گرمی اور حدت بڑھ رہی ہے، گلیشئر پگھلنے کی صورت میں تباہ کن سیلاب آئے روز کا معمول بن رہے ہیں اور لاکھوں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلوں کو ناقابلِ ِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہمارے زرعی سائنسدانوں کو مخلوط فصلوں کی کاشتکاری کی تحقیق پر جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ مخلوط فصلوں کی کاشت کاری کا تصور نیا نہیں ہے بلکہ اس کے متعلق واضح اشارے خود قرآن ِ مجید میں ملے ہیں۔ پچھلے دِنوں چین کی زرعی یونیورسٹی سچوآن سے سند یافتہ نوجوان پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر علی رضا ء اور اْن کی نوجوان ٹیم سے ملاقات ہوئی تو یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ پاکستان میں بھی مخلوط فصلوں کی کاشت پر کام شروع ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر علی رضا نے مخلوط فصلوں کی کاشت کاری کے لئے قرآن سے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے خود مخلوط فصلوں کی کاشتکاری کے متعلق سورت الکھف میں بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔سورت کی کچھ آیات کا ترجمہ کچھ یوں ہے۔ ’]اور[ جو ایمان لائے اور کام بھی نیک کرتے رہے تو ہم نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے لئے ہمیشہ رہنے کے لئے باغ ہیں جن میں ان کے ]محلوں کے [ نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہ باریک دیبا اور اطلس کے سبز کپڑے پہنا کریں گے ]اور[ تختوں پر تکیئے لگا کر بیٹھا کریں گے۔]کیا[ خوب بدلہ اور ]کیا[ خوب آرام گاہ ہے۔ اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کر و جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ عنایت کئے تھے اور ان کے گرد ا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی۔ دونوں باغ کثرت سے پھل لاتے۔ اور اس کی پیداوار میں کسی طرح کی کمی نہ ہوتی اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کررکھی تھی تو ایک دن جب کہ وہ اپنے دوست سے باتیں کررہا تھا کہنے لگا کہ میں تم سے مال و دولت میں بھی زیادہ ہوں اور جتھے اور جماعت کے لحاظ سے بھی زیادہ عزت والا ہوں‘۔ جنابِ ندیم اقبال حیران ہوگئے کہ خود قرآن میں واضح اشارہ اور طریقہ ِ کار کے باوجود ہمارے زرعی سائنسدان اس طرف توجہ کیوں نہیں دے رہے؟ کیا ہم اس قدر بے حس ہوگئے ہیں ۔ ہم نوشتہ ِ دیوار پڑھنے سے کیوں قاصر ہیں؟ جبکہ کئی یورپی ممالک نے اپنی زمینوں پر مخلوط کاشت کاری کے ذریعے نہ صرف غذائی بحران پہ قابو پالیا ہے بلکہ وہ کئی طرح کی اجناس برآمد کرکے زرِ مبادلہ کما رہے ہیں۔ کئی یورپی ممالک نے اپنی موٹرویز کے کناروں پر پھل دار درخت لگائے ہیں۔ اْن درختوں کے درمیان ادویات کے لئے مفید جڑی بوٹیاں لگائی ہیں بلکہ باقی ماندہ زمین حتی کہ فٹ پاتھ کے کناروں پر سبزیاں اْگائی ہیں۔ میوہ دار درختوں کا پھل بیچ کر منافع کمایا جارہا ہے جبکہ جڑی بوٹیوں سے زبردست ادویات بنائی جارہی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سبزیاں مقامی آبادی کی ضروریات بھی پوری کررہی ہیں۔ اِس طرح وہ ممالک سبزیوں اور پھلوں میں بھی خود کفیل ہوگئے ہیں۔اس طریقہ ِ کار کے مطابق ہر گھر خود کفیل ہوچکا ہے۔ ہمارے ہاں اِس وقت دو ہزار ایک سو چھیاسی کلومیٹر پر محیط موٹرویز آپریشنل ہیں جبکہ ایک ہزار دو سو تیرہ کلومیٹر پر موٹرویز کی تعمیرات یا منصوبہ بندی پر کام ہورہا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں اس وقت کل اْنتالیس قومی شاہراؤں میں بارہ ہزار ایک سو اکتیس کلومیٹر پر موٹرویز، ایکس پریس ویز اور اہم راستے ہیں۔ جبکہ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں دو لاکھ تریسٹھ ہزار 775 کلومیٹرز پر محیط روڈ نیٹ ورک پاکستان میں موجود ہے۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں محض موٹرویز کو قابل ِ کاشت بنانے کی منصوبہ بندی کریں اور اْس پر عمل پیرا ہوجائیں تو ہماری موٹرویز پھل دار ہونے کے ساتھ ساتھ سبزیوں، جڑی بوٹیوں کے علاوہ قدرتی ماحول فراہم کرنے والی سڑکیں بن جائیں گی۔ ہمارے کئی طرح کے معاشرتی و سماجی، آلودگی اور موسمیاتی مسائل حل ہوجائیں گے۔ہزاروں کلومیٹرز پر محیط پاکستان موٹرویز کو اس وقت موٹرویز پولیس کنٹرول کرتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ محکمہ ماحولیات، محکمہ صحت اور موٹرویز حکام زرعی ماہرین اور زرعی سائنسدانوں کے ساتھ مل کر جامع منصوبہ بندی کریں اور فوراََ موٹرویز کو آباد کرتے ہوئے نہ صرف کنارو ں پر پھل دار درخت لگائیں بلکہ دونوں اطراف پڑی خالی جگہوں پر جڑی بوٹیاں اور سبزیاں لگائی جائیں۔ جنابِ ندیم اقبال کی فراہم کردہ حیرت انگیز معلومات کے مطابق کئی پودے ایسے ہوتے ہیں جو منفی توانائی خارج کرتے ہیں جنہیں گھر میں لگانے سے گھر کے افراد میں کئی طرح کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کئی پودے مثبت توانائی خارج کرنے والے ہوتے ہیں۔ جن کی بدولت گھرکے افراد میں خوش گوار ماحول بنا رہتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم صرف اپنی نیت ہی درست کرلیں تو پاکستانی قوم بلاشبہ اس قدر طاقتور قوم ہے کہ جس چیز کا یہ ایک بار ٹھان لیتی ہے تو پھر اْسے کر گزرتی ہے۔ ابتدائی مرحلے پر ہمیں اپنی موٹرویز کو قابل ِ کاشت بنانا چاہئے۔ کامیاب تجربہ کی روشنی میں ہائی ویز، کارخانوں، جامعات، کالجز، سکولز اور دیگر جگہوں پر ایسے تجربات کے ذریعے ہم بہت سارے معاملات میں چند ہی سالوں میں خود کفیل ہوسکتے ہیں۔ بات صرف نیت کی ہے۔