مرشدی، سیدّی علامہ محمد اقبال کی لوحِ مزار پر جو اشعار کندہ ہیںوہ امتِ مسلمہ کے قرآنی تصور اور سیدالانبیاء ﷺ کی تعلیمات کی روشنی سے عبارت ہیں۔ اقبال کے سارے کلام اور پیغام کا نچوڑ یہ اشعار ہیں۔یہ لوحِ مزار سنگِ لاجورد میں افغانستان کے امیر کی طرف سے اقبال کے حضور نذرانہ عقیدت ہے۔ نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم چمن زادیم و ازیک شاخساریم تمیزِ رنگ و بو بر ما حرام است کہ ماپروردۂ یکِ نو بہاریم ترجمہ: ’’نہ ہم افغان ہیں، نہ ترک اور نہ تاتاری۔ ہم چمن زاد(یعنی ایک اُمت کا حصہ ہیں) اور ایک ہی شاخ سے ہیں۔ ہم پر رنگ و بو(رنگ و نسل، زبان اور علاقے) کی تمیز حرام ہے۔ کیونکہ ہماری پرورش ایک ہی نوبہار(اسلام)سے ہوئی ہے‘‘۔ اقبال کے یہ اشعار ’’پیامِ مشرق‘‘ کی رباعیات کی ایک رباعی کے ہیں۔ یہ کتاب 1923ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ ٹھیک وہ زمانہ تھا جب مراکش کے ساحلوں سے لے کر برونائی کے جزیروں تک پھیلی ہوئی امتِ مسلمہ کو رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر قومی ریاستوں میں تقسیم کیا جا رہا تھا۔ جنگِ عظیم اوّل کی ہولناکیاںاور قتل و غارت کے خوفناک دھبے ابھی دنیا کے چہرے پر تازہ تھے۔ پیامِ مشرق کے دیباچے کے آغاز میں علامہ اقبال نے تحریر کیا ہے کہ،’’ تصنیف کا محرّک جرمن حکیمِ حیات’’گوئٹے‘‘کا’’مغربی دیوان‘‘ ہے جس کی نسبت جرمنی کا اسرائیلی شاعر ’’ہا ئنا‘‘ لکھتا ہے، یہ ایک گلدستۂ عقیدت ہے جو مغرب نے مشرق کو بھیجا ہے۔۔۔۔ اس دیوان سے اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ مغرب اپنی کمزور اور سرد روحانیت سے بیزار ہو کر مشرق کے سینے سے حرارت کا متلاشی ہے‘‘۔ اس کے بعد اقبال نے ان تمام شعراء اور فلسفیوں کا تذکرہ کیا ہے جو دوسوسال قبل ہی سے مغرب کی بیزارکن مادہ پرست ترقی اور تہذیبی زوال سے تنگ آکر مشرق یعنی اسلامی دنیا کے عظیم روحانی ورثے سے روشنی حاصل کر رہے تھے۔ اقبال نے جب گوئٹے کے دیوان کی روح اورمآخذپر تبصرہ کیا تو بتایا ہے کہ دراصل جب 1812ء میں وان ہیمر(Von Hammer) نے جرمن زبان میں حافظ شیرازی کے ’’دیوانِ حافظ‘‘ کا ترجمہ کیا تو اس کی اشاعت کے فوراََ بعد جرمنی ادبیات میں مشرق یعنی مسلم دنیا سے علم حاصل کرنے کی تحریک کا آغاز ہوگیا۔گوئٹے کا اس زمانے میںمغرب میں طوطی بولتا تھا، اس کی عمر پینسٹھ سال ہو چکی تھی اور بقول اقبال،’’اس کی بے تاب اور بلند پروازروح نے مشرقی فضا کے امن و سکون میں اپنے لئے ایک نشیمن تلاش کر لیا،حافظ کے ترنم نے اس کے تخیلات میں ایک ہیجانِ عظیم برپا کردیا۔ جس نے آخر کار ’’مغربی دیوان‘‘ کی ایک پائیدار اور مستقل صورت اختیار کر لی‘‘۔ ’’مغربی دیوان‘‘دراصل گوئٹے کی وہ شعری تخلیق ہے جس کے جواب میں اقبال نے ’’پیامِ مشرق‘‘ تحریر کی ہے۔ اقبال بتاتے ہیں کہ گوئٹے کے خیالات کا محرّک اور مآخذ، حافظ کے اشعار ہی تھے، وہ لکھتے ہیں کہ ’’بعض جگہ اس کی نظم خواجہ کے اشعار کا آزاد ترجمہ معلوم ہوتی ہیـ‘‘۔ کہتے ہیں گوئٹے اپنے تخیلات میں شیخ عطار، سعدی، فردوسی اور عام اسلامی لٹریچر کا بھی ممنونِ احسان ہے‘‘۔ اقبال نے گوئٹے کے بعد آنے والے لاتعداد شعراء اور فلسفیوں کا ذکربھی دیباچے میں کیا ہے ان میں پلاٹن، روکرٹ اور بوڈن سٹارٹ شامل ہیں۔ اقبال کے نزدیک ان شعراء کا کلام اوران فلسفیوں کی تحریریں، مخزن الاسرارِنظامی، مثنوی مولانا روم، بہارستانِ جامی، کلیاتِ امیر خسرو، گلستانِ سعدی، مناقب العارفین، عیاّردانش، منطق الطیراورہفت قلزم جیسی کتابوں سے نہ صرف متاثرہیں بلکہ انہوںنے اپنی تحریروںمیں استعارے اور تشبیہات بھی ان سے مستعار لی ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ بوڈن سٹارٹ نے تواپنی نظموں کو ایک فرضی نام ’’مرزا شفیع‘‘ سے شائع کیا اور وہ مجموعہ اس قدر مقبول ہوا کہ تھوڑی سی مدت میں 140 دفعہ شائع کیا گیا۔ اقبال کی کتاب ’’پیامِ مشرق‘‘ گوئٹے کے ’’مغربی دیوان‘‘ کے سو سال بعدشائع ہوئی۔ اس کا مطلب ہے کہ مغربی فلسفی اور شاعر سو سال پہلے ہی جدید مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن، مادہ پرستی اور غیر انسانی پیکرسے بالکل متنفر ہو چکے تھے اور انہوں نے اسلام کے قدیم روحانی خزائن سے تسکین حاصل کرنا شروع کردی تھی۔ جدید مغربی تہذیب درجہ بدرجہ بڑھتی ہوئی اپنی تمام تر حشر سامانیوںکے ساتھ اقبال کے عہد میںیعنی1920ء کے آس پاس مکمل جلوہ گر ہو چکی تھی۔ قومی ریاستوں میںدنیا تقسیم کر دی گئی تھی، جمہوریت سکہ رائج الوقت تھا، حقوقِ نسواں سے عالمی مقابلہ حسن کی چکاچوند تک عورت کارپوریٹ دنیا کا رنگین نیو آن سائن بن چکی تھی اورسودی بینکاری کے پنجے مضبوط ہو چکے تھے، بقول اقبال۔ بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات ایک جدید مغربی شہر کا اس سے بہترین نقشہ نہیں کھینچا جا سکتاجو اقبال نے اپنی نظم،’’لینن خُدا کے حضور‘‘ کے اس شعر میں کھینچا ہے۔ پیامِ مشرق دراصل اقبال کا وہ خواب ہے جو اس نے جدید مغربی تہذیب کے زوال کے بعد اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے حوالے سے دیکھا ہے۔ اقبال کی اس کتاب کا اُردو ترجمہ فیض احمد فیض نے کمال محبت سے کیاہے، جس میں ان کی ہدایت و رہنمائی ان کے استاد صوفی غلام مصطفٰے تبسم نے کی تھی۔ اقبال نے اس کتاب کے دیباچے میں کہا تھا،’’تہذیب و تمدن کی خاکستر سے، فطرت، زندگی کی گہرائیوں میںسے ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے‘‘۔ حیران کن بات یہ ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی کتاب کا آغاز افغانستان کے سربراہ امیر امان اللہ خان کے نام ایک طویل نظم’’ پیشکش بحضوراعلیٰ حضرت امیر امان اللہ خان فرماروائے دولتِ مستقلہ افغانستان ‘‘ سے کیا ہے۔ یعنی دراصل یہ پوری کتاب ایک درخواست کی صورت انہیں پیش کی گئی ہے۔ اس نظم کے آخر میںاقبال اس افغان قوم سے اپنی تمام امیدیں وابستہ کر تے ہوئے انہیں جہانبانی کا اسلامی نسخہ بتاتے ہیں۔ حکمرانے بودسامانِ نداشت دستِ اوجزتیغ و قرآنِ نداشت ہر کہ عشقِ مصطفٰی سامانِ اوست بحروبردر گوشئہ دامانِ اوست سوزِ صدیقؓ و علیؓ از حق طلب ذرّۂ عشقِ نبی از حق طلب ترجمہ: ’’ وہ حکمران تھے مگر ان کے پاس کوئی سامان نہ تھا۔ قرآنِ پاک اور تلوار کے علاوہ کچھ نہ رکھتے تھے۔ ہر وہ شخص کہ جس کے پاس رسولِ اکرمؐ کی محبت کا سامان ہے، اس کے دامن کے جلو میں خشکی اور سمندر بندھے ہوئے ہیں۔(اے افغان) اللہ سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ کا سوز طلب کر اور اللہ سے رسول اللہﷺ کی محبت کا ذرّہ طلب کرو‘‘۔ اقبال نے 1923ء میںملتِ افغان کے سربراہ سے جو امیدیں وابستہ کر کے اپنی کتاب’’پیامِ مشرق‘‘ غازی امان اللہ کو پیش کی تھی، آج ٹھیک ایک سو سال بعد اسی افغانستان کی سر زمین اقبال کے اس خواب کی تعبیر دیکھ رہی ہے۔ دنیا کی تمام عالمی طاقتوں کو شکست دینے والے ’’طالبان‘‘ کے پاس بقول اقبال کوئی سامان نہیں ہے سوائے قرآن اور تلوار کے اور ان کے پاس کوئی اور محبت نہیں ہے سوائے رسول اللہ ﷺ کی محبت کے اوران کے دلوں میں کوئی اور سوز نہیں سوائے ابوبکر ؓ اور علیؓ کے سوز کے۔ یہی تووہ سرزمین ہے کہ رسولِ اکرم ؐ نے جن کے بارے میں بشارت دیتے ہوئے فرمایاتھا، ’’خراسان سے کالے جھنڈے نکلیں گے، ان جھنڈوں کو کوئی چیز پھیر نہیں سکے گی، یہاں تک کہ یہ ایلیاء (فلسطین کے شہر) میں نصب کر دئیے جائیں گے‘‘(جامع ترمذی حدیث: 2269) آج کے آخر الزمان اور دورِفتن میں ملت اسلامیہ کی امیدوں کا مرکز صرف افغان سرزمین ہے۔ وہ سرزمین جہاں ٹیکنالوجی اور طاقت کا بت پاش پاش ہوا ہے۔