ایک عرصہ اور دنیا کی رنگینی پھر آخرت کا دھیاں‘ عجب تکون ہے۔ زندگی کی بسا اوقات بہت گہری سوچ دنیا سے دل اچاٹ کر دیتی ہے اور بسا اوقات سطور بالا کی حقیقت کو ماں کی گود سے بطور درس حاصل کیا اور پھر باپ کی شفقت کے سائے میں اس شجر درس کو اتنا بڑھاوا ملا کہ ساری زندگی میں حالات اور خیالات کی الٹ پلٹ میں تربیت کا یہ آئینہ زندگی کی منازلِ سفر کو دیکھتا رہا۔ مایوسی کی دھندلاہٹ کے سامنے بھی اس آئینہ تربیت کی چمک ماند نہ پڑ سکی۔اب معاشرے کی جواں توانائی ایک ساماں رِشک ہے۔ ان کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ لیکن نظام خانہ پر بیرون تہذیب کے اثرات بہت ہی منفی پڑ رہے ہیں۔ اب مائوں کا انداز محبت مختلف ہے۔ مائوں کی گودمیں اب گرمی الفت تو ہے لیکن حرارت ایمان کا ایسا فقدان ہے کہ جونہی بچہ ذرا پائوں چلا تو اس کے دست ناتواں میں کھیلنے کے لئے موبائل تھما دیا جاتا ہے مائیں امانت تخلیق کی بطنی تربیت کے لئے خوبصورت بچوں کے تصور سے اپنے مستقبل کی آس رکھتی ہیں۔ تب ایک ٹھہرائو ایک اطمینان کا زمانہ تھا اور مائیں اپنا فرض ادا کرتی تھیں وہ اپنا ہر کام امانت خداوندی کی ادائیگی کا حرمت رکھتے ہوئے سرانجام دیتی تھیں میری والدہ مرحومہ اماں جی صبح سویرے بیدار ہوتی تھیں۔ تہجد کے بعد ذرا دیر کو استراحت کرتی تھیں پھر گھر کی تمام صفائی اور نظامت کا کام فجر کی نماز سے پہلے ہی کر لیا کرتی تھیں۔ نماز فجر ادا کرنے کے بعد تمام درودوظائف کی ادائیگی کا اہتمام کرتی تھیں لیکن اس سے پہلے تمام بچوں کو نہایت شفقت سے بیدار کرتی تھیں اور سب سے پہلی تلقین یہ تھی کہ بستر سے پائوں نیچے رکھنے سے پہلے کلمہ طیبہ کا ورد کرو‘صبح کے اس ہنگام نور میں کلمہ طیبہ کی ادائیگی اتنی مسحور کن اور روح پرور ہوتی تھی گویا اب ہمیں نئی زندگی مل گئی ہے۔ اماں جی اپنے درودوظائف سے فراغت کے بعد بچوں کو سکول بھیجنے کے مرحلے کی ابتدا کرتی تھیں۔ ناشتہ تیار کرتی تھیں لیکن اس مرحلہ تیاری کے کسی بھی لمحے میں وہ ذکر خدا و مصطفی سے غافل نہیں ہوتی تھیں۔ ذرا نیم بلند آواز سے کلمہ طیبہ و درود شریف پڑھتی رہتی ہیں اور پھر ذرا وقفے کے بعد۔۔۔۔۔۔سیونی مینوں پیارا لگدا نام محمدﷺوالا پڑھتی رہتی تھیں اور ہم چھوٹے بہن بھائی یہ ترانہ ازبر کئے ہوتے تھے اور مدرسے یا سکول جاتے ہوئے اسی ترانے کو اپنے ذوق روحانی کا توشہ بنائے رکھتے تھے۔ ہمارے والد گرامی حضرت میاں جیؒ محلے بھر کے بچوں کو کسی معاوضے کے بغیر قرآن کریم پڑھانے کا شغل رکھتے تھے۔ اس ازخود واجبی خدمت کے بعد اپنا کاروبار دیکھتے تھے مگر صرف اتنا جس کے ضروری معاشی تقاضے پورے ہو جائیں۔ پھر ان کے روز مرہ کے سماجی اور روحانی معاملات تھے جو ان کی زندگی کے عمومی معمولات پر غالب تھے۔ صبح سے پہلے وہ تہجد گزاری کے لئے مزار حضرت داتا گنج بخش ؒ پر حاضر ہوتے تھے۔ تہجد گزاری کے بعد پیدل چل کر محلے کی مسجد میں نماز فجر با جماعت ادا کرتے تھے۔ داتا صاحب ؒ کے مزار پر آنے جانے کے دوران وہ چند پاروں کی تلاوت کر لیا کرتے تھے۔ قرآن کریم کے جید حافظ تھے دن بھر میں قرآن کریم کا بہت سا حصہ زبانی تلاوت کرتے تھے، ان کا یہ پاکیزہ شغف ان کی خاندانی روحانی وراثت کا حصہ تھا۔ ان کے والد حضرت حافظ مبارک صاحبؒ نے ان کو اپنی خاص نصاح میں یہ تاکید فرمائی تھی کہ قرآن پاک کی تلاوت کا شغف باطن میں کثیر القوت روشن خانے آباد کرتی ہے، میاں جی ؒ نے اپنے والد گرامی کی اس نصیحت کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا معمول بنا لیا تھا۔ دوسری نصیحت میرے دادا حضور نے حضرت میاں جی کو یہ فرمائی تھی کہ بیٹا دعا سب سے بڑا رشتہ ہے، بندے اور خدا کا سب عبادتوں کا جوہر دعا ہے۔ حضرت میاں جی ؒ کو مقبول و مجرب دعائوں کا بیشتر حصہ اپنے اجداد سے روحانی وراثت میں ملا تھا۔ راقم کی تربیت میں ہمیشہ نرمی اور شغفت برتتے تھے۔ اس کے باوجود دینی حمیت کے باب میں ہمیشہ مضبوط اور ثابت قدم کردار پر ابھارنے کی تربیت ہی ان کی عطا و خاص ہے۔ اجتماعی دینی حمیت اور مسلم قومیت کے ساتھ حب الوطنی کی بات کرتے ہوئے اس طرح گفتگو فرماتے تھے۔ جیسے کوئی امیر عساکر اپنے سپاہیوں کو دلیرانہ اور جاں نثارانہ اقدام پر ابھارتی ہے۔ ایوبی آمریت کے خلاف جب علماء میدان عمل میں اترے تو حضرت میاں جی ؒ بڑی شدت سے یہ بات دھرایا کرتے تھے کہ ظلم کی حد ہو گئی کہ اب حکمرانوں کو جگانے کے لئے علماء کو بھی میدان میں آنا پڑ گیا۔ دیکھو یہ غضب ہو گیا ہے۔ علماء کی ہمراہی میں راقم کو ساتھ لے کر جلوسوں میں شرکت کیا کرتے تھے پھر کسی بھی قومی تحریک میں ان کی عملی غیر حاضری نظر نہیں آتی۔ اپنے حلقہ احباب اور شاگردوں کو شدو مد سے تلقین فرمایا کرتے تھے کہ حق کے غلبے کے لئے جان مال اور اپنی دنیاوی وجاہت کی پرواہ نہ کیا کرو۔ حرف نویس کی طبیعت میں غیرت دینی کا جوہر کوٹ کوٹ کر بھرا۔ ایک مرتبہ ایک بڑے سرکاری منصب پر رہتے ہوئے ایک دبائو آیا کہ حکومت وقت کی غیر دینی حرکات کو قانون کی چھتری مہیا کرنے کے لئے راقم کی خدمات حاصل کی جائیں۔ میاں جی ؒ کو یہ بات بتائی تو انہوں نے فوراً فرمایا کہ رزق اور عزت اللہ تعالیٰ کی عطا ہے جو سرکار کونینﷺ کے نعلین مبارکین کے صدقے میں ملتے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں ناموس رسالتﷺ کے بارے میں جب مقدمات زیر سماعت تھے تو حکومت کا لالچ اور دبائو مسلسل جاری تھا۔ ورنہ عتاب کا سامنا نظر آتا تھا۔ میاں جی نے فرمایا بیٹا یہ چند ٹکوں کی نوکری ہے۔ سرکار ؐ کی غلامی دو جہاں کی نعمتوں سے بڑی نعمت ہے۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ درمیان کا کوئی راستہ نکالنا چاہیے۔ فقیر نے جواب دیا کہ میرے والد فرماتے ہیں کہ راستہ درمیانی نہیں ہوتا ہے۔ بس صراط مستقیم ہوتا ہے اور صراط مستقیم صرف اور صرف غلامیٔ رسول ﷺ میں موت بھی قبول ہے جو ہو نہ عشق مصطفیﷺ تو زندگی فضول ہے ماہ اکتوبر میں یہ رحمت کا گھنا سایہ عالم جاوداں کی جانب منتقل ہوگیا۔ سورۃ یٰسین تلاوت کرتے کرتے آخری سانس لیا اور جان جان آفریںکے سپرد کرتے ہوئے بھی قرآن پر عمل کرنے کا عملی درس دے گئے۔