نون لیگ کی سیاست اگر مریم صفدر کے حوالے کردی گئی ہے تو لواحقین کو قبل از وقت فاتحہ کا انتظام کرلینا چاہئے۔ محترمہ نے جس دن سے نون لیگ کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی ہے، اسپیڈ بریکروں کی پروا کئے بغیر ،نو آموز ڈرائیوروں اور نومسلموں جیسے جوش و خروش کے ساتھ پارٹی کی بچی کچھی،ڈھیلے پرزوں والی زنگ آلود گاڑی کو ہر اوبڑ کھابڑ راستے سے نہ صرف گزارنے کی کوشش کررہی ہیں بلکہ کہنہ مشق ڈرائیوروں سے زبردستی داد بھی وصول کرنا چاہتی ہیں۔معلوم ہوتا ہے انہوں نے نون لیگ کو ان ہنگامی حالات میں چلانے کے لئے محض یہ کافی سمجھا ہے کہ وہ نااہل اور سزا یافتہ نواز شریف کی صاحبزادی ہیں۔یہ سوچنا نون لیگ کے رہنماوں کا کام ہے کہ کیا نون لیگ کے مستقبل کے لئے ، اگر کوئی ہے، یہی ایک نکتہ کافی ہے؟اگر یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ پارٹی کی سیاست ایک شخص کے گرد گھومنی ہے جو اس وقت کوٹ لکھپت جیل میں سزا بھگت رہا ہے تو اس کی بیٹی مریم نواز سے اچھا انتخاب کون ہوسکتا ہے۔اگر یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر تو نون لیگ کے حامیوں کو کالم کا پہلا فقرہ بار دگر پڑھ لینا چاہئے۔بادی النظرمیں معلوم یہی ہوتا ہے کہ نون لیگ کی ساری قیادت نے تمام تر بوجھ مریم نواز کے کاندھے پہ رکھ کر خود تماشا دیکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔بحرانی حالات میں سہل فیصلوں کی خوگر نون لیگ کی قیادت اس سے بہتر فیصلہ کر بھی نہیں سکتی تھی ۔ مریم نواز کی متنازعہ پریس کانفرنس جس میں وہ جج ارشد ملک کی خفیہ وڈیو سنوا رہی ہیں، ان کی دانست میں ترپ کا پتہ تھی جو گیم پلٹ سکتی تھی۔ہوا لیکن یہ کہ پریس کانفرنس کے چند ہی گھنٹوں کے اندر اندر اس کی وہ چتھاڑ ہوئی جیسے نئی نئی مارکیٹ میں آئی کتاب کی نقادوں کے ہاتھوں ہوا کرتی ہے۔سوشل میڈیا کے دور میں جب نوجوانوں کو آڈیو اور وڈیو کی معلومات پہلے سے کہیں زیادہ ہیں ، ہر لیپ ٹاپ فرانزک لیب بن چکا ہے۔ جج صاحب ، بقول مریم صفدر جن کا ضمیر انہیں سونے نہیں دیتا تھا اور راتوں کو اٹھا اٹھا کر دریافت کرتا تھا کہ بتا ایک ستر سالہ بزرگوار کو جھوٹے مقدمے میں سزا دلوا کر تجھے کیا ملا؟اس وڈیو کے مندرجات سے نہ صرف انکاری ہوگئے بلکہ کوتوال نے محاورے کا خیال نہ کرتے ہوئے اور سیدھا سیدھا چور کو ڈانٹ پلادی کہ اس نے من پسند فیصلے کے لیے رشوت کی پیش کش کی تھی۔ اس کے بعد نون لیگ کے پاس اس کے سوا کچھ نہ بچا تھا کہ وہ جج صاحب کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے اس بیان کو کسی دباو ٔکا نتیجہ بتاتی۔ بات یہ ہے کہ جب یہ بیان کسی دباو ٔکا نتیجہ ہے تو مذکورہ ویڈیو بھی کسی دباو ٔکا نتیجہ ہوسکتی ہے ورنہ ضمیر کے قیدی جج صاحب کو ایک صاف ستھری اعترافی ویڈیو بنانے سے کون روک سکتا تھا۔اگر کوئی خوف تھا تو اس پریس کانفرنس کے ذریعے نون لیگ نے انہیں خطرے میں ڈال کر دھوکا کیوں دیا اور ججوں سے ملاقاتوں کی خفیہ وڈیو بنا کر بھرے مجمع میں نشر کرنا کون سی اخلاقیات ہے؟ جج صاحب کو چائے کے ساتھ جو گرما گرم ویڈیو دکھائی گئی کیا ضروری ہے وہ اسی نے بنائی ہو جس پہ مریم صاحبہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے الزام دھر رہی ہیں؟ مجھے پریس کانفرنس میں پیش کی گئی دھندلی ویڈیو کی مبہم آواز پہ کوئی اعتراض نہیں کیونکہ میرا خیال ہے کہ ویڈیو کی آواز جان بوجھ کر مبہم رکھی گئی ہے۔ اصل صاف آواز والی ویڈیو فرانزک کے لئے پیش کی جا سکتی ہے جس میں وہ کم سے کم اتنی صاف ضرور ہوگی جتنی اس فون کال میں تھی جو شہباز شریف نے بطور وزیر اعلی پنجاب جسٹس قیوم کو من پسند فیصلے کی ڈکٹیشن کے لئے کی تھی۔ شاید یہی وہ خلش تھی جس کیوجہ سے شہباز شریف اپنی ہونہار بھتیجی کی پریس کانفرنس میں ابتدائی تعارفی کلمات کے بعد ایک لفظ بھی نہ بولے اور چپ چاپ تماشا دیکھتے رہے۔اب جو ہو گا سو ہوگا لیکن آئندہ کے لئے جج صاحبان نون لیگیوں سے ملاقات سے توبہ کرلیں گے ۔وڈیو کسی بھی وقت بڑے پردے پہ دکھائی جاسکتی ہے۔ایسے میں میرا حکومت کو مشورہ ہے کہ خوامخواہ ججوں کا وکیل بننے سے پرہیز کرے اور خاموشی سے فرانزک ہونے دے۔اگر ویڈیو اصل ہے اور واقعی جج صاحب کو ضمیر کی خلش نے سچ اگلنے پہ مجبور کیا ہے تو نواز شریف کے خلاف مذکورہ کیس دوبارہ کھولا جائے اور اس کی غیر جانبدار تحقیقات کے لئے نئی جے آئی ٹی تشکیل دی جائے۔اب یہ سوچنا نون لیگ کا کام ہے کہ جس کیس کا فیصلہ اس وقت نواز شریف کے خلاف آیا تھا، اِن حالات میں ان کے حق میں کیسے آسکتا ہے۔دوسری طرف معزز جج صاحب اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے ناصر بٹ اور محترمہ کے خلاف پرائیویسی ایکٹ کے تحت مقدمہ بھی دائر کرسکتے ہیں۔ ابھی یہ ہنگامہ گرم ہی تھا کہ مریم صفدرنے منڈی بہاؤالدین میں جلسے سے آدھی رات کو خطاب کرتے ہوئے عمران خان سے اس وڈیو کی بنیاد پہ استعفیٰ کا مطالبہ کردیا ۔مجھے ان دونوں باتوں کا کوئی کنکشن سمجھ نہیں آیا اور غالبا ًمسز صفدر کو بھی نہیں آیا۔ کیا عمران خان اس لئے وزیر اعظم بنے کہ نواز شریف کے خلاف عدلیہ نے فیصلہ دیا اور وہ جیل چلے گئے؟ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ عمران خان دھرنے کے دنوں میں نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ اس لئے کرتے رہے کیونکہ پاناما کیس میں وزیر اعظم کے بیٹوں حسن حسین اور صاحبزادی مریم صفدر کا نام موجود تھا۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ وزیر اعظم کے برسراقتدار ہوتے ہوئے معاملے کی شفاف تحقیقات ممکن ہو۔اس کے بعد کی لمحہ بہ لمحہ کہانی پاکستان کی عدالتی اور صحافتی تاریخ کا حصہ ہے۔ نئے انتخابات جس میں عمران خان وزیر اعظم بنے ، کوئی وسط مدتی انتخابات نہیں تھے، شیڈول کے مطابق ہونے والے نارمل انتخابات تھے۔اس حساب سے مریم نواز کا مذکورہ وڈیو کی بنیاد پہ یا کسی بھی بنیاد پہ عمران خان سے استعفیٰ کا مطالبہ محض کارکنوں کا سرد پڑتا لہو گرمانے کا بہانہ ہوسکتا ہے، حقیقت سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔مریم صفدر اپنے سزا یافتہ والد کی قید پہ جذباتی بیانات کی بنیاد پہ ان کی سزا ختم نہیں کرواسکتیں نہ ہی کسی وڈیو کی بنیاد پہ ایسا ممکن ہے،لیکن بالفرض محال اگر ایسا ہو بھی جائے تو کیا شیڈول کے مطابق ہونے والے انتخابات کالعدم قرار دیئے جائیں گے اور ماضی کی طرح نواز شریف وزارت عظمی کے عہدے پہ بحال ہوجائیں گے؟ظاہر ہے یہ ایک لایعنی مفروضہ ہے۔یہاں بچی کچھی نون لیگ کو سوچنا چاہیے کہ باپ بیٹی کی اس سیاست میں خو د نون لیگ کہاں کھڑی ہے؟کیا رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کے بعد پوری نون لیگ دل چھوڑ کر بیٹھ گئی ہے یا اپنی ڈرائیونگ سیٹ مریم صفدر کے حوالے کرکے تماشا دیکھ رہی ہے؟