چرچل سے منسوب ایک فقرے کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے کہ جنگ اتنی آسان چیز نہیں ہے کہ اسے محض جرنیلوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ کچھ ایسا ہی فقرہ ہے جس کو الٹ پلٹ کر مختلف انداز میں معنی پہنائے جاتے ہیں۔ مجھے ان تہہ داریوں سے اس وقت کوئی غرض نہیں‘ میں اس سے فی الحال ایک سادہ اور سیدھا سا مفہوم لے رہا ہوں جو یقینا اس کے کلی مفہوم کا تو احاطہ نہیں کرتا‘ مگر حسب حال ضرور ہے۔اور وہ یہ کہ جنگیں صرف فوج یا جرنیل نہیں جیتتے۔ بلکہ پوری قوم کو اس میں شامل ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں اس پس منظر میں 65ء اور 71ء کی جنگوں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ ہم 65ء کی جنگ جیت گئے کہ پوری قوم ساتھ تھی اور 71ء کی ہار گئے کہ اس کی پشت پر عوام کی طاقت نہیں تھی۔ اس وقت سب سے بڑا چیلنج قوم اور عوام کو تیار کرنے کا ہے اور اس کا یہ طریقہ نہیں کہ محض بیان بازی کی جائے نہ محض نام نہاد ففتھ جنریشن وار فیئر اس کے کام آ سکتی ہے۔ ہمیں عملی طور پر کچھ کرنا ہو گا اور ہم یہ کر سکتے ہیں۔ ہم ایک ’’چسکا باز‘‘ قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ ہر بات میں مزے لیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں جگت بازی ہی کو فن سپہ گری سمجھ رکھا ہے۔ ہر ادارے اور ہر سیاسی جماعت کا اعلان کر دینا کہ ہم ایک ہیں‘ ہمیں اس طرح ایک نہیں کرتا جو جنگوں کا تقاضا ہے۔ ہمیں دل سے ایک ہونا پڑے گا۔ آج بھی جو سیاست بازی ہو رہی ہے وہ جنگ کے چلن نہیں ہیں۔ سب کو مل کر اس کا کوئی حل ڈھونڈنا ہو گا۔ بعض اوقات تو مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اختلاف کس بات پر ہے معاف کرنا‘ آج ہم کا ہے کونواز شریف کے بعض بیانات اچھال رہے ہیں۔ اس ملک میں کوئی حکمران ایسا نہیں ہوا جو بھارت سے پرامن تعلقات نہ چاہتا ہو اور ان حکمرانوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے بھارت سے پیار ہو‘ یا وہ مودی کا یار ہو۔ آج ایک طرف ہماری قیادت نے یک زبان ہو کر بھارت کو للکارا ہے تو دوسری طرف ہم نے جماعتہ الدعوۃ اور فلاح انسانیت پر پابندی کا اعلان کر دیا ہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ بہاولپور میں اس مدرسے کو حکومت کی تحویل میں لے لیا ہے۔ جس کے بارے میں بھارت یہ پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ یہ جیش محمد کا تربیتی مرکز ہے۔ صحافیوں نے اس مدرسے کو اندر سے دیکھا کہ یہ کوئی تربیتی مرکز نہیں‘ یہاں علماء کرام دین کی تعلیم دینے میں منہمک ہیں۔60ء سے زیادہ طلبہ کی یہاں مفت رہائش کا انتظام ہے۔ انہیں کھانا بھی دیا جاتا ہے اور اس کے مصارف ان عطیات ‘ صدقات اور خیرات سے ادا کئے جاتے ہیں جو ملک اور شہر کے لوگ اپنی جیبوں سے دیتے ہیں۔ اتنی سیدھی سی بات میں ہم نے اتنی دیر کیوں کر دی اور اچانک اس موقع پر ہمیں یہ اقدامات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کیا ہم نے اس کام کے لئے نامناسب وقت کا انتخاب تو نہیں کیا یا یہ کہ ہم خواہ مخواہ اسے ٹالتے رہے ہیں۔ کوئی دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ ماضی میں بھی حکومتیں کیا کہتی رہی ہیں۔ خواجہ آصف نے جب یہ کہا کہ ہمیں اپنا گھر درست کرنا ہو گا تو ہنگامہ ہو گیا۔ جب کوئی طالبان سے بات چیت یا مذکرات کا ذکر کرتا تو نام نہاد لبرل‘ میڈیا چیخ اٹھتا۔ جی ہاں‘ یہ شوروغوغا لبرل لابی مچاتی تھی نہ کہ ’’ریڈیکل‘‘ خیالات رکھنے والے۔ ہم نے بہت سیاست کرلی۔ اب اس کی گنجائش نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض معاملات میں ہم پر بہت زیادہ عالمی دبائو رہا ہے۔ امریکہ یا مغرب ہی نہیں‘ چین اور ہمارے دوسرے دوست بھی چاہتے تھے کہ ہم بعض اقدامات کریں۔ اس میں ماضی میں ہماری حکومتوں کی بھی یہ رائے رہی ہے۔ بعض مصلحتوں کی وجہ سے اور دشمنوں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے ہم ایسا نہ کر سکے۔ الحمد للہ ‘ اب کر رہے ہیں۔ میں بار بارکہتا آیا ہوں کہ ہم اس وقت تاریخ کے درست رخ پر کھڑے ہیں۔ اس خطے کی سیاست بدل رہی ہے۔ یہ نہیں کہوں گا کہ مکمل طور پر بدل رہی ہے مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ حالات کے ریلے مختلف انداز میں چل رہے ہیں یہ اندازہ لگانا کہ آنے والے دنوں میں معاملات کیا رخ اختیار کریں گے ہماری قیادت کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اس کا ادراک کرنا ہے۔ میں ڈر کے مارے اپنے قلم پر قابو رکھ رہا ہوں۔ مبادا یہ الزام نہ لگ جائے کہ میں احتساب کے خلاف دلائل دے رہا ہوں۔ خدا نہ کرے کبھی ایسا ہو‘ تاہم ایک بات یاد رکھئے کہ جنگ کا اپنا دستور العمل ہوتا ہے اور ہم یقینا حالت جنگ میں ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری قیادت کے چہرے بشرے سے عیاں ہے۔ واقعات بول بول کر بتا رہے ہیں کہ سرحد کے اس پار کیا ہو رہا ہے۔ کشمیر کے اندر ساری قیادت کو گرفتار کر کے بقول ہمارے وزیر خارجہ کے کشمیر بدر کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے اندر صرف پاکستان دشمنی کے مظاہرے ہی نہیں ہو رہے ہیں‘ بلکہ کشمیریوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسی صورت حال کم ہی پیدا ہوتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں جس طرح اندرا گاندھی کے قتل کے بعد بھارت میں سکھوں کا جینا دوبھر کر دیا گیا تھا‘ اس طرح کشمیریوں پر بھارت کی سرزمین تنگ کی جا رہی ہے۔ سرحدوںکی صورت حال کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے آرمی چیف نے اگلے مورچوں کا دورہ کیا ہے۔ خدا پاکستان کو سلامت رکھے‘ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پاکستان کے اندر ایک ایسی فضا پیدا کریں جو جنگ کے لئے ضروری ہے۔ یہ واقعہ تو ہم نے کتابوں میں پڑھا ہو گا۔ ایک زمانے میں نصاب میں شامل تھا۔ سپاہی اس لئے گرفتار تھا کہ وہ شراب پیتا تھا۔ میدان جنگ کو دیکھ دیکھ کر وہ تڑپ اٹھتا کہ قوم کو مری ضرورت ہے اور میں قید میں ہوں۔ اس کی بے تابی دیکھ کر سپہ سالار کی بیوی نے اسے اس شرط پر رہا کر دیا کہ وہ لڑائی کے بعد واپس قید خانے میں آ جائے گا۔ لوگوں نے دیکھا‘ ایک شخص اپنی جان پر کھیل کر دشمن پر شدید وار کر رہا ہے۔ جنگ ختم ہوئی تو وہ قید خانے میں تھا کہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ واپس آ کر اپنی سزا کاٹے گا۔ باقی تاریخ ہے‘ مسلمانوں کی تاریخ‘ تاریخ نے اس واقعہ ہی کو نہیں ‘اس کے سب کرداروں کو زندہ جاوید کر دیا ہے۔ اس وقت ہم بھی حالت جنگ میں ہیں۔ قوم کا ہر فرد اس کا سپاہی ہے۔ یہ بات ہماری پاک فوج کے ترجمان جنرل آصف غفور نے بھی کہی ہے ۔مجھے اندازہ ہے کہ پاکستان میں یہ بات اچھی سمجھی جا رہی ہے ہمیں فاٹا سے لے کر کراچی تک اور پنجاب سے لے کر بلوچستان تک ہر فرد کو جنگ کے لئے تیار رکھنا ہے۔ صرف اس صورت میں ہم یہ جنگ جیت سکتے ہیں۔ شاید دشمن پھر اس کی ہمت ہی نہ کرے۔ ہم نے ماضی قریب میں اپنی بیوقوفیوں سے ملک کی معیشت کا کباڑہ کر دیا۔ اب مگر ملک کی سلامتی کا معاملہ ہے۔ ہم اس میں کوئی کھلواڑ نہیں کر سکتے۔ ہمیں ایک ہونا پڑے گا‘ہر صورت میںایک۔ ہم نے ہر معاملے میں اپنی فوج کو ملوث کر رکھا ہے۔ بھل صفائی سے لے کر کون سی’’صفائی‘‘ ہے جس کے لئے ان کی طرف نہیں دیکھتے۔ اب مگر یہ جان لیجیے ‘ ملک کو آپ کی ضرورت ہے۔ فوج آگے ہو گی اور آپ اس کی پشت پر ایک طاقت ہوں گے مرے پیارو‘ پیارے پیارے سے لوگو‘ مری بات سمجھ لو‘ میں کچھ کہہ رہا ہوں اس کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔