ہمارے ہاں کسی ثقہ دانشور کی سب سے بڑی نشانی تو یہی سمجھی جاتی ہے کہ اس کے ماتھے پہ تیوری کندہ ہو۔ مزاج میںسختی اور لہجے کی درشتی تو اس کا انتخابی نشان ہوتا ہے۔ اس کی دہشت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے لوگ اس کے دفتر یا گھر کے دروازے کے سامنے سے گزرتے ہوئے کترائیں۔ کہیں اچانک آمنا سامنا ہو جائے تو جل تُو جلال تُو کا وِرد شروع کر دیں۔ لیکن ان سب کے بیچوں بیچ چند ایک دانش ور ایسے بھی ہیں کہ جن سے مل کے زندگی سے پیار ہو جائے، انھی میں ایک درخشندہ نام ڈاکٹر خورشید رضوی کا بھی ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کا تعلق سرگودھا سے ہے اور وہ صحیح معنوں میںاِس وقت پاکستان کے ادبی منظرنامے کی توقیر ہیں۔ ایک دنیا ان کے علمی وقار پہ فدا ہے۔ وہ علم و دانش کا منبع تو ہیں ہی لیکن نجی محفلوں اور بے تکلف احباب کی محافل میں ان کی حِسِ مزاح بھی عَود کے آتی ہے۔ ایک بار جب مَیں نے انھیں باتوں باتوں میں بتایا کہ مَیں نے اپنے لاہور والے گھر کا نام ’’ظرافت منزل‘‘ رکھا ہے تو انھوں نے جھٹ لسان العصر اکبر الہ آبادی کا ایک مزے دار واقعہ سنایا کہ اکبر نے جب اپنے گھر کا نام اپنے بیٹے عشرت (جسے وہ پیار سے عشرتی بھی کہتے تھے۔ کسی زمانے میں اسی کی بابت کہا تھا: ’’ کھا کے لندن کی ہوا سویوں کا مزہ بھول گئے‘‘) کے نام پر ’’عشرت منزل‘‘ رکھا تو کسی حقیقت سے ناواقف صاحب نیگھر کا ایسا نام رکھنے کی وجہ دریافت کی۔اس پر اکبر نے بڑا مزے دار جواب دیا، فرمایا: جب تک حالات اچھے ہیں یہی نام موزوں رہے گا، اگر صورتِ حال دگرگوں ہوئی تو اوپر سے نقطے مٹا دیں گے، پھر یہ ’ عُسرت منزل‘ پڑھا جائے گا اور اگر صورتِ حال اس سے بھی ابتر ہوئی تو نیچے ایک نقطہ لگا دیں گے، یہ خود بخود ’عبرت منزل‘ ہو جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب ویسے تو ہر لکھنے والے کو سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں لیکن مرعوب و متاثر کم ہی لوگوں سے ہوتے ہیں۔ ان کی گفتگو میں جا بجا در آنے والے حوالوں اور مثالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سرگودھا سے تعلق رکھنے والے معروف انشائیہ نگار اور ماہرِ تعلیم جناب غلام جیلانی اصغر کے بے حد قائل ہیں ، جو سرگودھا کالج میں ڈاکٹر صاحب کے کولیگ اور پرنسپل بھی رہے۔ فرماتے ہیں کہ مَیں ایک دن جیلانی صاحب کے کمرے میں گیا تو بہت اداس اور پریشان بیٹھے تھے۔ پریشانی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے: ’میاںکیا بتاؤں، مَیں جب بھی خود کُشی کا ارادہ کرتا ہوں، کوئی نہ کوئی اس سے ضروری کام آن پڑتا ہے اور مَیں اس میں الجھ جاتا ہوں۔ اس طرح میری خود کشی روز بہ روز مؤخر ہوتی چلی جاتی ہے۔‘ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ مَیں ان کے منھ سے یہ بات سن کے ہنسنے لگا تو بولے: ’’مجھے خدشہ ہے کہ آپ لوگ اسی طرح میرے مسائل اور مصروفیات کا مذاق اڑاتے رہیں گے اور مَیں ایک نہ ایک دن طبعی موت کے ہاتھوں مارا جاؤں گا۔‘‘ اسی طرح ڈاکٹر وزیر آغا کے ساتھ ایک تقریب تھی، جس کا احوال ڈاکٹر خورشید صاحب کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر زاہد منیر نے بھی سنایا کہ اس میں جب جیلانی صاحب کو دعوتِ خطاب دی گئی تو سٹیج پہ آتے ہی انھوں نے ایک نظر آغا صاحب کے حلیے پر ڈالی، سر پہ ٹوپی، پاؤں میں تسموں والے جوگر، فرمانے لگے: ’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایسے شخص سے کیا دوستی ہو سکتی ہے جو دنوں طرف سے بند ہو۔‘ ڈاکٹر صاحب نے ایک دن ایک بھارتی ادیب سُرجیت سنگھ لانبا کا قصہ بھی سنایا جو ہر سال خصوصی طور پر پاکستان تشریف لاتے۔ وہ اُردو، اقبال اور امیر خسرو کے بہت شیدائی تھے۔ وہ سیاسی گفتگو سے عمداً گریز کرتے لیکن کسی صحافی نے خالصتان کے حوالے سے کوئی بیان ان کے ساتھ منسوب کر کے چھاپ دیا۔ اس کے بعد جانے کیا ہوا، وہ پاکستان نہیں آئے۔ اپنی تقاریر اور گفتگو میں یہ شعر وہ بڑی رغبت سے پڑھا کرتے: میری ہمت کو سراہو ، مِرے ہمراہ چلو مَیں نے اِک دیپ جلایا ہے ہواؤں کے خلاف اسلام سے بھی ان کو خاص لگن تھی اور وہ نعت بڑے شوق سے پڑھا کرتے۔ کسی محفل میں نقوش والے محمد طفیل صاحب نے کہہ دیا: ’’ لانبا صاحب ! یقین کرو تُسی تے ادھے مسلمان او‘‘ جھٹ بولے: ’’توں مینوں کوئی پورا تے وکھا!!!‘‘ ڈاکٹر صاحب ہی راوی ہیں کہ قیامِ ملک سے قبل ایک سکھ اور مسلمان ادیب میں کسی لفظ کے مفہوم اور تلفظ پر بحث چل نکلی۔ جب کافی سر کھپانے کے بعد بھی دونوں کسی ایک نکتے پہ متفق نہ ہو سکے تو مسلمان ادیب نے زچ ہو کے کہا: ’تینوں کیہہ پتہ توں سکھ ایں!‘ سکھ بھی ہار ماننے کو تیار نہ تھا۔ اس نے کہا یہ کوئی دلیل نہیں، چلو کسی ماہر لسّان سے مشورہ کر لیتے ہیں۔ چنانچہ دونوںسید عابد علی عابد کے پاس پہنچے اور اپنا مسئلہ بیان کیا۔ سید صاحب نے فوراً سکھ کے موقف کو درست قرار دیا۔ اب سکھ کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی، وہ فوراً مسلمان ادیب سے مخاطب ہو کے تَن کر بولا: ’’ ہُن سنا! سِکھ مَیں آں کہ توں؟‘‘ ڈاکٹر موصوف ہی نے دو ضرورت سے زیادہصائب الرائے دانشوروں کی بابت بتایاکہ عبدالقدوس ہاشمی ادارۂ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد (جہاں ڈاکٹر صاحب بھی چھے سال خدمات انجام دیتے رہے) میں لائبریرین تھے۔ نہایت صاحبِ مطالعہ ہونے کے ساتھ ساتھ اکھڑ مزاج بھی تھے۔ وہاں ایک زمانے میں جناب فضل احمد شمسی کسی موضوع پر تحقیق کر رہے تھے، موصوف بھی اعلیٰ قابلیت کے باوجود تنک مزاجی کا چلتا پھرتا اشتہار تھے۔ ایک دن وہ لائبریری تشریف لائے تو بعض چیزوں کو خلافِ مزاج دیکھ کے کہا: ’’یہ لائبریری ہے یا تماشا؟‘‘ ہاشمی صاحب نے پورے تحمل سے یہ بات سنی اور پھر ان کو مخاطب کر کے کہا: ’’ یہ تماشا ہے، اب آپ چاہیں تو قتلِ عمد کریں یا خود کُشی کا ارادہ کریں!!!‘‘ آپ سب جانتے ہیں کہ معروف مزاح نگار پطرس بخاری کا آج سے سو سال قبل بیان کردہ لاہور کا حدود اربعہ کہ : ’لاہور سے باہر بھی لاہور ہے۔‘ روز بروز با معنی ہوتا جا رہا ہے، لیکن سچ بات یہ ہے کہ یہ باہر کا لاہور ہمارے شعرا ، ادبا کو راس نہیں آیا۔ یہ فاصلے ثقافت کے متوالوں بلکہ رکھوالوں کو ثقافت سے دور کر دینے کا عمل تھا۔ ڈاکٹر وحید قریشی سمن آباد چھوڑ کر ای ایم ای سوسائٹی میں منتقل ہوئے تو اس المیے کو ان الفاظ میں بیان کیا: چکر تھا اپنے پاؤں میں بھاگے چلے گئے ٹھوکر نیاز بیگ سے آگے چلے گئے مجھے یاد ہے کہ جناب عطا الحق قاسمی تقریباً بیس سال قبل اسی کالونی میں رہائش پذیر ہوئے تو انھوں نے بتایا کہ مجھے چیچہ وطنی سے فون آیا کہ قاسمی صاحب آپ لاہور چھوڑ کر اتنی دُور تو آ گئے ہیں، کسی دن تھوڑی سی ہمت کر کے چیچہ وطنی بھی آ جائیں!!! ڈاکٹر خورشید رضوی کی بابت بھی ہم جانتے ہیں کہ وہ جب سے جوہر ٹاؤن کا ہنستا بستا علاقہ چھوڑ کے وہاں جا بسے تو ہمیشہ نالاں ہی نظر آئے، چوری ڈکیتی کے واقعات پیش آنے پر تو انھوں نے بجا طور پر فرمایا: کھائی ہیں یوں تو زمانے بھر کی ٹھوکریں ٹھوکر نیاز بیگ ہے ، ٹھوکر نیاز بیگ