وزیر اعظم عمران خان نے مظفر آباد میں کشمیری عوام سے خطاب میں بھارتی حکومت کو عالمی قرار دادوں کا احترام کرنے اور مقبوضہ کشمیر میں 40روز سے عاید کرفیو ہٹا کر ریفرنڈم کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر اعظم نے بھارتی وزیر اعظم کو ایک بار پھر ہٹلر قرار دیتے ہوئے انتباہ کیا کہ کشمیر کا معاملہ پرامن طریقے سے حل نہ کیا گیا تو جنگ کے خطرات موجود ہیں۔ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار فاروق حیدر نے پاکستانی قیادت کو مشورہ دیا کہ وہ بھارت کے بچھائے دو طرفہ مذاکرات کے جال میں نہ پھنسے۔ وزیر اعظم عمران خان ایک ماہ میں چار بار آزاد کشمیر کا دورہ کر چکے ہیں۔ آزاد کشمیر میں ان کی موجودگی مظلوم کشمیریوں کے لئے حوصلے کا باعث بن رہی ہے اور کشمیری نوجوان مذاکرات کا سلسلہ ختم ہونے کی صورت میں کنٹرول لائن پار کر کے بھارتی افواج سے دوبدو لڑائی کو بے تاب دکھائی دیتے ہیں۔ دو ہفتے قبل پاکستان اور آزاد کشمیر کے ڈاکٹروں کے ایک گروپ نے کنٹرول لائن کا دورہ کیا اور سرحد پار جا کر مظلوم کشمیریوں کے شانہ بشانہ لڑنے کی خواہش ظاہر کی۔ کشمیری نوجوانوں کا جوش جہاد بڑا منطقی ہے۔ آزاد کشمیر میں آباد ہر خاندان کی رشتہ داریاں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے ہیں۔ ایک بھائی آزاد کشمیر میں ہے تو دوسرا مقبوضہ کشمیر میں۔ ماں باپ مقبوضہ کشمیر میں تو اولاد آزاد کشمیر میں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم کی داستانیں جب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے ذریعے باہر کی دنیا تک پہنچتی ہیں تو آزاد کشمیر کے لوگوں کا صدمے اور اشتعال میں آنا قدرتی امر ہے۔ اس جذبے کے سامنے بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کے بند زیادہ عرصہ تک رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ خصوصاً ان حالات میں جب بھارت مسئلے کو حل کرنے کی ہر کوشش سے پسپائی اختیار کررہا ہے۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کو فوجی طاقت سے قابو میں رکھنے کی کوشش جاری ہے۔ اس مسلسل کرفیو کے نتیجے میں مقامی آبادی کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ خوف اور نامعلوم خدشات نے پوری وادی کو گھیر رکھا ہے۔ بھارتی افواج نوجوانوں کوگھروں سے اٹھا کر غائب کر رہی ہیں۔ بھارتی فوج کی تعداد میں آئینی ترامیم کے بعد مزید ایک لاکھ نفری کا اضافہ کر دیا گیاہے۔ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ بھارتی افواج مقبوضہ کشمیر میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں تک کو ہراساں کر رہی ہیں۔ ان حالات میں مقبوضہ کشمیر میں یہ نعرہ گونجتا معلوم ہوتاہے’’ون سلیوشن ‘ گن سلیوشن‘‘ مقبوضہ کشمیر میں پولیس ناکام ہو چکی ہے۔ فوج نے تھانوں کا انتظام سنبھال رکھا ہے۔5اگست سے اب تک متعدد کشمیری بھارتی فوج سے جھڑپوں میں شہید اور درجنوں کی تعدادمیں زخمی ہوئے ہیں۔ بھارتی مظالم کے بڑھنے سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں نوجوانوں کا مزاحمت کی طرف میلان بڑھنے لگا ہے۔کئی نوجوانوں نے عالمی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت نے مظالم کا سلسلہ بند نہ کیا تو ان کے پاس ہتھیار اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا۔ ان کے خیال میں روز مرنے کے بجائے ایک ہی بار مر جانا زیادہ مناسب ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی آبادی بھارت کے مختلف جنگی ہتھکنڈوں کا نشانہ بن رہی ہے۔ ضعیف العمر افراد کو بے عزت کیا جاتا ہے‘ گھروں کا تقدس پامال کر کے اہل خانہ کی تلاشی لی جاتی ہے۔ نوجوانوں کو پیلٹ گن کا ہدف بنایا جاتا ہے۔ املاک کو آتشگیر مواد سے خاکستر کیا جاتا ہے۔ پھلوں کے باغات جو اہل کشمیر کے روزگار کا ذریعہ ہیں انہیں بھارتی فوج کی نگرانی میںکاٹا جا رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے لڑکوں کو فوج پر سنگ باری کے الزام میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ان کارروائیوں نے مقبوضہ کشمیر میں جذبہ حریت کو ابھارا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں 1947ء سے جاری ہیں۔ کشمیری عوام کا خیال ہے کہ بھارت نے ان کے لئے مزاحمت کے سوا کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ اس لئے اکثر افراد نوجوان کمانڈر شہید برہان وانی کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ پاکستان ایک طویل عرصہ تک مشکل صورت حال سے نبرد آزما رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ نے دنیا کی جابر اور ظالم اقوام کو موقع دیا کہ وہ امریکہ کی کارروائیوں کی حمایت کے بدلے اپنے خلاف مزاحمت کی ہر تحریک کو دہشت گردی قراردلا سکیں۔ گزشتہ برس اور رواں سال کے آغاز تک امریکہ کشمیر میں سرگرم کئی تنظیموں اور شخصیات کو دہشت گرد قرار دے کر بھارت سے اپنے معاشی مفادات پورے کرتا رہا ہے۔ اس غیر منصفانہ پالیسی کی وجہ سے کشمیر میں تحریک حریت کو دہشت گردی قرار دے کر بھارت نے پاکستان پر ذمہ داری عاید کی۔ پاکستانی حکمت عملی کے باعث بھارت کو جلد ہی ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ خاص طور پر افغانستان سے امریکی انخلا کے معاملے میں پاکستان کی ضرورت نے دنیا کو قائل کیا کہ وہ کشمیر کے معاملے کو انسانی المیے کی صورت میں دیکھے۔ ناانصافی اور مسلسل جبر کا شکنجہ کتنا بھی طاقتور ہو مظلوم جب مزاحمت کا عزم کر لے تو فوج کی تعداد‘ ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی اور معاشی حجم غیر اہم ہو جاتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان جانتے ہیں کہ کشمیری نوجوانوں کو زیادہ عرصہ تک اپنے مظلوم بھائی بہنوں کی مدد کے لئے لائن آف کنٹرول پار کرنے سے روکنا ممکن نہیں ہو گا تاہم وہ چاہتے ہیں کہ عالمی برادری سے اس سلسلے میں ایک بار حتمی بات ہو جائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے حکمت کے ساتھ کشمیری نوجوانوں کو روک رکھا ہے لیکن عالمی برادری کی بے حسی ختم نہ ہوئی تو تحریک مزاحمت کو ایل او سی پار کرنے سے روکنا ممکن نہیں رہے گا۔