بچوں سے کائنات کی سب سے خوب صورت تخلیق ذہن میں آتی ہے۔ معصومیت ‘ شرارت‘ تازگی‘ نیا پن اور زندگی جن کے معصوم چہروں میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ بچے مسکرائیں کھلکھلائیں تو زندگی اپنا بوجھ اتارنے لگتی ہے۔ کائنات کا یہ حسن تو ان بچوں کے دم سے ہے جو صاف ستھرے رنگ برنگے کپڑے پہنے اٹھیکھیلیاں کرتے۔ محبتوں سے بھرے محفوظ ماحول میں پرورش پاتے ہیں۔ لیکن المیہ تو یہ ہے کہ اس دنیا کے سبھی بچے ایسے خوش قسمت کہاں ہوتے ہیں۔ سو ہمارے آس پاس ایسے بدصورت مناظر بھی بہت ہیں کہ میلے گندے کپڑوں میں ملبوس بچے۔ چہرے کے معصوم خدوخال ‘ بھوک اور میل سے لتھڑے ہوئے۔ آنکھوں میں شرارت کی چمک نہیں بلکہ حسرتوں کے جہاں آباد دکھائی دیتے ہیں۔ بچپن کی دہلیز پر بڑھاپا اوڑھے ایسے بچے جن کی قسمت میں نہ سکول جانا ہے نہ کسی کھلونے کی فرمائش ہے۔ ایسے بچے پیدا ہوتے ہی سیانے ہو جاتے ہیں ۔پاکستانیوں میں ایڈز جس تیزی سے پھیل رہی وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ خصوصاً معصوم بچے اس جان لیوا بیماری کا شکار ہو رہے ہیں۔ سکول جانے کی عمر میں مزدوریاں کرنے لگتے ہیں تو گھر کا معاشی بوجھ اپنے چھوٹے چھوٹے کومل ہاتھوں سے بانٹنے لگتے ہیں۔ ان مزدور بچوں کے لئے دنیا ہر سال 12جون کو ایک دن مناتی ہے اور سب کو یاددہانی کرواتی ہے کہ لوگو ان مزدوربچوں کے حقوق کے بارے میں بھی کچھ سوچو ان کے سارے حق اس دنیا کے عدم مساوات پر مبنی ظالم نظام نے سلب کر لئے۔ نہ یہ بچے سکول گئے نہ کتاب کھولی۔ نہ کوئی کہانی پڑھی۔ نہ پہاڑہ یاد کیا۔ نہ سلیٹ پر الف بے لکھا۔ نہ کسی تصویر میں رنگ بھرا۔ بس یہ بچے پیدا ہونے کے سزوار ہوئے انہیں پیدا ہوتے ہی زندگی بھگتنی پڑ گئی۔ ان مزدوربچوں کے میلے ہاتھوں اور مشقت سے تھکے جسموں کو دیکھ کر مجھے ایسے بچے بھی یاد آتے ہیں جو اگرچہ مزدور نہیں ان جیسی مزدوری بھی نہیں کرتے لیکن زندگی ان کے لئے بھی کسی مشقت سے کم نہیں۔ مجھے رتوڈیرو اور لاڑکانہ کے بدقسمت بچے یاد آتے ہیں‘ جو اپنی مائوں کی گودیوں میں کھیلتے کھیلے ایچ آئی وی ایڈز جیسی بالغوں کی بیماری کا شکار ہو گئے جس بیماری کو جوڑا ہی غیر محفوظ جنسی تعلقات سے جاتاہے۔ غربت زدہ سندھ کے ان معصوموں نے نہ جانے کن کا کیا اپنی جانوں پر سہا ہے۔ اب کچھ بھی وجوہات تلاش کریں۔ عطائی ڈاکٹر ،گندی سرنجیں یا پھر غیر محفوظ انتقال خون۔ ان بچوں کی زندگیاں تو اس بیماری نے ریت کی دیوار کی طرح غیر محفوظ بنا دیں۔ جس کا ازالہ ہی ممکن نہیں۔ سو آج کا یہ کالم ان تمام کم نصیب بچوں کے نام ہے جنہیں زندگی نے خواب نہیں دیے بھوک اور بیماریاں دیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ سندھ کے جن دو شہروں میں ایڈز نے ہولناک تباہی پھیلائی ہے وہاں کے ناخدا آج بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہی پاکستان کے غریبوں کے اصل نمائندے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو غریبوں کی پارٹی ہمیشہ کہا جاتا تھا اور آج بھی یہی دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن یہ دعوے اور وعدے تو پاکستانی مارکہ سیاست میں اسی لئے کئے جاتے ہیں کہ انہیں کبھی پورا نہ کیا جائے۔ بس غریب کو جھوٹے خواب دکھائو۔ خوشحالی کی آس دلائو اور سیاست کرتے رہو۔ زرداری کی گرفتاری پر احتجاجی پریس کانفرنسیں کرنے والے پیپلز پارٹی کے سیاسی رہنما ایک نظر ذرا لاڑکانہ اور رتو ڈیرو کے ان سینکڑوں گھروں میں ڈالیں اور دیکھیں کہ جہاں ہرگھر سے بھٹو نکلتا تھا وہاں اب ہر گھر سے ایڈز کا مریض نکل رہا ہے۔ ان مریضوں میں سینکڑوں کی تعداد ان ایڈز زدہ بچوں کی ہے جن کی عمریں چھ ماہ سے سات آٹھ سال تک ہیں۔ بھٹو زندہ ہے مگر سندھ کے بچے ایڈز سے مر رہے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ماہرین کی ٹیم نے رتو ڈیو اور لاڑکانہ میںاس سرعت کے ساتھ ایڈز پھیلنے کو ایمرجنسی صورت حال سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ایک غیر معمولی المیہ ہے پاکستان ایشیا میں دوسرا بڑا ملک ہے جہاں یہ جان لیوا بیماری اس تیزی سے پھیل رہی ہے۔گزشتہ روز کے اخبار میں بھی فیصل آباد کے حوالے سے بھی ایسی ہی تشویشناک خبر موجود ہے جہاں دو ہزار سے زائد افراد میں ایڈز کا مرض تشخیص ہوا ہے۔ ان میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے تاہم عورتیں اور بچے بھی معقول تعدادمیں شامل ہیں۔ فیصل آباد کے علاوہ جھنگ ننکانہ ‘ ساہیوال میں بھی ایڈز کے مریض تشخیص ہو رہے ہیں۔ یہ ایک پراسرار صورت حال ہے دو ماہ قبل یعنی اپریل میں سندھ میں سینکڑوں ایڈز مریض تشخیص اور اب پنجاب کے ان شہروں میں بھی سینکڑوں افراد ایڈز کے مریض نکلے۔ ارباب اختیار کو اس پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ایمرجنسی نافذ کر کے اس کی وجوہات تلاش کریں اور اس جان لیوا بیماری کو پھیلنے سے روکیں کیسا معکوس سفر ہے ترقی کا۔ یہاں پولیو پر واویلا مچتا تھا کہ اب تک ہم پاکستان سے پولیو ختم نہیں کر سکے۔ پولیو تو کیا ختم ہوتا پاکستانیوں میں ایڈز جس تیزی سے پھیل رہی وہ انتہائی تشویشناک ہے خصوصاً معصوم بچے اس جان لیوا بیماری کا شکار ہو رہے ہیں۔ پنجاب میں ڈینگی پھیلا تھا تو شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ جس شدت اور تندہی سے اس بیماری کے خلاف کام کیا وہ ایک مثال بن گیا ہے۔ 35ترجمانوں کے ساتھ بزدار حکومت کو بھی ایسے ہی جذبے اور تندہی کے ساتھ ایڈز کے وار کو روکنا ہو گا۔ کالم تمام ہوا۔ لیکن میں اس میں تھر کے ان قحط زدہ بچوں کا تذکرہ نہ کر سکی جو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے اس ہائی فائی دور میں صاف پانی اور اچھی غذا کو ترستے ہوئے ماں کی گودیوں ہی میں مر جاتے ہیں! اور ان کی بھوکی پیاسی ادھ موئی مائیں میلی اوڑھنیوںمیں اپنے آنسو جذب کرتے رہ جاتی ہیں! کون کہتا ہے کہ بچے سانجھے ہوتے ہیں۔ اگر بچے سانجھے ہوتے تو ہم مشقت‘ بھوک اور بیماری سے مارے ہوئے ان بچوں کا درد ضرور محسوس کرتے!